افغانستان میں دہشتگردتنظیموں کی موجودگی,کانگریشنل ریسرچ سروسز کی رپورٹ منظر عام پر

11:48 AM, 18 May, 2024

پبلک نیوز: افغانستان میں دہشتگرد تنظیموں کی موجودگی کے حوالے سے کانگریشنل ریسرچ سروسز کی رپورٹ منظر عام پر آگئی۔

تفصیلات کے مطابق افغانستان میں تنازعات اور عدم استحکام کی وجہ سے افغانستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے جو پاکستان اور خطے کے امن کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

 کانگریشنل ریسرچ سروسز کی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کو پاکستان میں حملوں کیلئے القاعدہ اور افغان طالبان کی مکمل حمایت اور سہولت کاری دستیاب ہے،اقوام متحدہ کی پابندیوں کی مانیٹرنگ رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ افغانستان میں موجود دہشتگرد خطے کی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ ہیں، دہشتگرد تنظیم القاعدہ 1990ء سے افغانستان میں موجود ہے۔

کانگریشنل ریسرچ سروسز کی رپورٹ  کے مطابق افغانستان میں القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہیں اس لئے دی گئیں کیونکہ اس نے 9/11کے حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی، دنیا کو دکھانے کیلئے افغان طالبان نے القاعدہ کو محدود کرنے کیلئے کچھ اقدامات کئے جس کے بعد دونوں کے درمیان کشیدگی نے بھی جنم لیا۔

اقوام متحدہ کی پابندیوں کے مانیٹرز کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ مشرقی افغانستان میں تنظیم نو کے مرحلے میں ہے جہاں وہ نئے تربیتی مراکز قائم کر رہی ہے،القاعدہ افغانستان میں تربیتی کیمپ، مدرسے اور محفوظ پناہ گاہیں چلا رہی ہے تاہم یہ تنظیم طویل فاصلے تک جدید حملوں کی منصوبہ بندی نہیں کرسکتی۔

رپورٹ کے مطابق 2021ء میں افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعدٹی ٹی پی کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں میسر آنے کے بعد پاکستان پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

دہشتگرد تنظیم ٹی ٹی پی جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پابندیوں کے مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق  ٹی ٹی پی پاکستان مخالف ایجنڈا رکھتی ہے۔

ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی حامی جماعت کے طور پر ظاہر کیا گیاجس کے بعد افغان طالبان نے کثیر تعداد میں ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی۔

رپورٹ کے مطابق اسلامی ریاست خراسان میں زیادہ تر ٹی ٹی پی کے دہشتگرد شامل ہیں جو 2014ء میں پاکستان آرمی کے شروع کئے گئے آپریشن کے بعد افغانستان فرار ہوگئے تھے،اسلامی ریاست خراسان افغانستان میں موجود سب سے خطرناک دہشتگرد تنظیم ہے جسے 2016ء میں دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا،اسلامی ریاست خراسان نے مارچ 2024ء روس سمیت دیگر ممالک میں حملے کیے جس سے بھاری جانی نقصانات ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلامی ریاست خراسان پورے وسطی ایشیا سے دہشتگردی کی بھرتی کرتی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت اس کے پاس 2ہزار سے لیکر 5 ہزار تک دہشتگرد موجود ہیں، افغانستان میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور ایسٹرن ترکمانستان اسلامی موومنٹ بھی موجود ہیں جو افغانستان سے  وسطی ایشائی ریاستوں میں دہشت گردی کی کاروائیوں کو سر انجام دیتے ہیں۔

رپورٹ کے  مطابق ایسٹرن ترکمانستان اسلامی موومنٹ کا ہیڈکوارٹر اب بھی شمال مغربی افغانستان میں طالبان کے زیر پرستی موجود ہے۔

افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی خطے کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جس کیخلاف بین الاقوامی سطح پر فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں