5 سال بعد انٹرا پارٹی انتخاب کروائے،اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے،الیکشن کمیشن

10:59 AM, 18 Sep, 2024

ویب ڈیسک: الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابی کیس کی سماعت کے دوران ممبر خیبرپختونخوا اکرام اللہ نے ریمارکس دیے کہ 5 سال بعد انٹرا پارٹی انتخاب کروائے ہیں، اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔

تفصیلات کے مطابق ممبر سندھ نثار درانی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن سے مہلت مانگ لی، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ہمارے وکیل آج پیش نہیں ہو سکتے، تین ہفتوں کا وقت دے دیں۔

اس موقع پر ممبر خیبرپختونخوا اکرام اللہ کا کہنا تھا کہ ویسے آپ نے الیکشن کہاں کرائے تھے؟

 چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم نے چاروں صوبوں اور اسلام آباد میں الیکشن کرائے.

ممبر کے پی نے کہا کہ فرض کریں ہم پی ٹی آئی انٹرا پارٹی تسلیم نہیں کرتے؟ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی پر 5سال کی پابندی لگ سکتی ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر ہم کیا کارروائی کرسکتے ہیں؟

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم آپ کو اس معاملے پر بھرپور معاونت فراہم کریں گے۔

5 سال کے اندر آپ نے انتخاب نہیں کروائے، 5 سال کے بعد انٹرا پارٹی انتخاب کروائے، اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخاب کیس کی سماعت 2 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

 پی ٹی آئی نے بہترین انٹرا پارٹی الیکشن کرائےتھے، بیرسٹرگوہر

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹرگوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے بہترین قسم کے انٹراپارٹی الیکشن کرائے، پی ٹی آئی نے چاروں صوبوں میں انٹراپارٹی الیکشن کرائے، پی ٹی آئی چیئرمین،سیکرٹری جنرل، چار صدور کا انتخاب کیا گیا تھا، کسی نے بھی پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن پراعتراض نہیں کیا تھا۔

بیرسٹرگوہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے خط میں آئینی اور قانونی سوال پوچھے تھے، الیکشن کمیشن نے خط میں کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تھا، مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن نے خود دستاویز جمع کرائے، الیکشن کمیشن کی پی ٹی آئی اسٹرکچر سے متعلق بات غلط تھی، ہم نے الیکشن کمیشن کے سوال کاجواب سپریم کورٹ میں فائل کیا۔

 بیرسٹرگوہر نے کہا کہ ہمارا پارٹی کا اسٹرکچر موجود ہے، امید ہے 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ حل ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے الیکشن کمیشن ہماری راہ میں مزید رکاوٹیں نہیں ڈالے گا، لاہور کا جلسہ اپنے وقت پر ہوگا۔

بیرسٹرگوہر نے کہا سپریم کورٹ بھی اب چیزیں واضع کر چکی ہے، الیکشن کمیشن کے لئے یہ مناسب نہیں وہ ایک پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر بات کرے اور باقیوں کو چھوڑ دے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا انٹرا پارٹی الیکشن کا کیس سماعت کے لیے مقرر تھا، ہم نے جو دستاویزات جمع کروائے تھے وہ ابھی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے پاس ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم نے درخواست کی تھی کہ ایف آئی اے سے تمام دستاویزات طلب کیے جائیں، پی ٹی آئی 175 سیاسی جماعتوں میں واحد جماعت ہے جس نے شفاف ترین انٹرا پارٹی الیکشن کروائے۔

پس منظر

پی ٹی آئی نے 9 جون 2022 کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے تھے جس کیس کو الیکشن کمیشن نے تقریباً ڈیڑھ سال تک گھسیٹنے کے بعد نومبر 2023 میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔

23 نومبر 2023 کو جاری حکم میں الیکشن کمیشن نے سابق حکمران جماعت کو اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم نہیں ہونے کے لیے نئے انتخابات کروانے کے لیے 20 دن کا وقت دیا۔

الیکشن کمیشن کا حکم ایک ایسے وقت میں آیا جب عام انتخابات میں تقریباً دو ماہ باقی تھے اور سیاسی جماعتیں ملک بھر میں اپنی انتخابی مہم تیزی سے چلا رہی تھیں۔

اپنے مشہور انتخابی نشان کو برقرار رکھنے کے لیے بے چین پی ٹی آئی نے 10 دن سے بھی کم وقت لیا اور 2 دسمبر 2023 کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گئے۔

22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں دوسری بار پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد ایک سیاسی جماعت کے اندرونی کام کی نوعیت کا پہلا خوردبینی جائزہ لیا گیا اور اسے آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔

الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے لیے وفاقی الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کر سکتے تھے۔

کمیشن کے فیصلے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لینا پڑا اور پارٹی کو اس سال 3 مارچ کو تیسری بار اپنا انٹرا پارٹی الیکشن منعقد کرنا پڑا۔

تاہم الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر انتخابی مشق پر اعتراضات اٹھائے اور اعتراضات کی تفصیلات بتائے بغیر ہی معاملہ سماعت کے لیے مقرر کردیا۔

پی ٹی آئی کے اعتراضات پر کمیشن نے بالآخر ان کے ساتھ ایک سوالنامہ شیئر کیا جس میں پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں اور تنظیمی ڈھانچہ اور انتخابی نشان کھونے کے بعد پارٹی کی حیثیت پر سوال اٹھایا گیا۔

پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی طرف سے پوچھے گئے 7 سوالات کے تفصیلی جواب جمع کرائے تھے، جس میں الیکشن باڈی پر زور دیا گیا تھا کہ وہ تازہ ترین انٹرا پارٹی انتخابات کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے، پارٹی کے وفاقی چیف الیکشن کمشنر رؤف حسن نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی ایک موجودہ اور فعال سیاسی جماعت ہے جو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 202 کے تحت الیکشن کمیشن میں درج ہے۔

انہوں نے جواب میں الیکشن کمیشن کے تحفظات دور کرنے کے لیے کہا کہ الیکشن ایکٹ، 2017، یا الیکشن رولز، 2017 میں ایسی کوئی شق نہیں ہے کہ ایک اندراج شدہ پارٹی پانچ سال کی میعاد ختم ہونے کے بعد اپنے ’تنظیمی ڈھانچے‘ سے محروم ہو جائے گی اگر پانچ سال کے اندر کوئی انٹرا پارٹی الیکشن منعقد نہیں ہوتا ہے تو، تاہم اس میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی نے اپنا انٹرا پارٹی انتخاب 9 جون 2022 کو منعقد کیا، لیکن الیکشن کمیشن نے 23 نومبر 2023 کو ہدایت کی کہ انٹرا پارٹی پی ٹی آئی کے ’مروجہ آئین‘ (2019 کے آئین) کے تحت منعقد ہونا چاہیے۔

اور ان انتخابات کے انعقاد کے لیے پاکستان میں پی ٹی آئی کے تمام اراکین پر مشتمل پی ٹی آئی کی جنرل باڈی کا اجلاس 31 جنوری کو بلایا گیا، جنرل باڈی سے مطلوبہ منظوری لی گئی، جس کے تحت ایف ای سی کو بھی جلد از جلد انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے لیے مقرر کیا گیا، اس کے بعد پی ٹی آئی نے 21 فروری کو ای سی پی کو جنرل باڈی کی منظوریوں کی روشنی میں انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے لیے کیے گئے تمام اقدامات سے آگاہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے 2 مارچ کو ان اقدامات کی توثیق کی اور پارٹی کو پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کو آگے بڑھانے اور منعقد کرنے کی ہدایت کی، اس کے مطابق انٹرا پارٹی 3 مارچ کو منعقد ہوا اور دستاویزات کمیشن کے پاس جمع کرائی گئیں، لہٰذا، پی ٹی آئی آج تک ایک اندراج شدہ سیاسی جماعت ہے اور اس طرح وہ آئین کے آرٹیکل 17، الیکشنز ایکٹ، 2017، اور الیکشن رولز، 2017 سمیت قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت اپنے حقوق کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لینا پڑا اور پارٹی کو اس سال 3 مارچ کو تیسری بار اپنا انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کرنا پڑا تھا۔

مزیدخبریں