ویب ڈیسک: گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہوٹل ریسٹورنٹ مختلف پیشکشیں کرتے رہتے ہیں۔ آج کل بڑے ہوٹلوں میں بوفے ایک ٹرینڈ بن گیا ہے۔ جس میں لوگ ایک مخصوص رقم دے کر جتنا چاہیں کھا سکتے ہیں۔ تاہم چین میں رہنے والے ایک شخص نے الزام لگایا ہے کہ ایک ہوٹل نے بوفے میں اس کےبہت زیادہ کھانے پر پابندی لگا دی ہے۔
بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق مسٹر کانگ کا کہنا ہے کہ وہ اکثر مختلف ہوٹلوں میں جا کر بوفے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن ایک ہوٹل نے انہیں یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ زیادہ کھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہوٹل والے ہی آپ کو جتنا چاہیں کھانے کی پیشکش کرتے ہیں تو پھر کسی کو زیادہ کھانے کا حوالہ دے کر کیسے روکا جا سکتا ہے؟
مسٹر کانگ نے امتیازی سلوک کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک ہوٹل یا ان کے اکیلے کی بات نہیں ہے. بہت سے دوسرے لوگ بھی اس امتیاز ی سلوک کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا، ' ہوٹل زیادہ کھانے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ جب ہم پورے پیسے دیں گے تو ہمیں پیٹ بھر کرکھانے کا حق ہے۔ کانگ نے اعتراف کیا کہ اپنے پہلے وزٹ میں ا نہوں نے 1.5 کلو گوشت اور دوسری بار تقریباً 3.5 کلو سے 4 کلو جھینگے کھائے۔
کانگ نے سوال کیا کہ میں زیادہ کھاتا ہوں تو کیا یہ میرا قصور ہے؟ ساتھ ہی ہوٹل کے مالک کا کہنا ہے کہ مسٹر کانگ جب بھی آتے ہیں انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ ان کی خوراک کسی بھی عام آدمی سے زیادہ ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، 'کانگ ایک وقت میں سویا دودھ کی 20 سے 30 بوتلیں پیتے ہے۔ اور اسی دوران جب کوئی گوشت کھانے بیٹھتا ہے تو کسی کے لیے کچھ نہیں بچتا۔
ہوٹل کے مالک کے مطابق بتایا کہ صرف کینگ ہی نہیں اس نے کئی اور لوگوں پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ "ایک عام آدمی کسی بھی چیز کا ایک یا دو ٹکڑا اٹھاتا ہے، لیکن مسٹر کانگ پوریوں کی پوری ٹرے اٹھا لیتے ہیں،" انہوں نے کہا۔ ہر بار اتنا نقصان کوئی کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی سخت فیصلہ لینا پڑتا ہے۔