عدالت 14 مئی کو الیکشن کرانے کا فیصلہ واپس نہیں لے گی، چیف جسٹس
02:45 PM, 20 Apr, 2023
ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی. چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے وزارت دفاع کی ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کروانے کی درخواست پر سماعت کی ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ نے نیک کام شروع کیا ہے اللہ اس میں برکت ڈالے،عدالت بھی اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی ۔ اٹارنی جنرل عدالت کے سامنے پیش ہوئے ، وکیل درخواست گزار شاہ خاور ایڈووکیٹ نے یہ موقف اپنایا کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے ، مناسب یہ ہو گا کہ عدالت تمام قائدین کو سن لے ، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن ایک ہی دن ہوں ۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی قائدین کا تشریف لانے پر مشکور ہوں ، صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے ، قوم میں اضطراب ہے، قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا، عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسلہ حل کریں تو برکت ہو گی ۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی عدالت میں پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ عدالت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں ؟ جس پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتے ہیں ، ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے ، ہمیشہ راستہ نکالنے اور آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی ہے ، قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے ، دیکھتے ہیں کہ اب حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے ، ہماری جماعت آئین کے تحفظ پر آپ کے ساتھ ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں ہی ہوں ، درخواست گزار بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں ، اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا ہے لیکن سیاست کی نظر ہوگیا ، فاروق نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا ہے ، اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں، ن لیگ نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے اور یہ موقف اپنایا کہ حکومتی سیاسی اتحاد کا مشترکہ مؤقف ہے کہ 90 دن میں انتخابات کا وقت گزر چکا ہے ۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آگئے اور بتایا کہ پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرچکا ہوں میں ، ایک سیاسی پہلو اور دوسرا قانونی ہے ،آئین 90 روز کے اندر ، اندار انتخابات کروانے کے حوالے سے واضح ہے ، کسی کی بھی خواہش کا نہیں بلکہ آئین کا تابع ہوں ، سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا ہے ، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ہیں ، عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا ہے ، تلخی کی بجائے آگے بڑھنے کے لئے آئے ہیں، سیاسی قوتوں نے مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے ۔ شاہ محمو د قریشی کا مزید کہنا تھا کہ آئینی اور جمہوری رستہ انتخابات ہی ہیں ، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے ہی چاہئیں ، مسلم لیگ ن کی قیادت نے کہا ہے کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں ، ہمیں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی ، اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا،حکومت ختم ہونے کے بعد سے جو بھی ہوا سب کے سامنے ہے، ن لیگ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد بھی فیصلے سے مکر گئی۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے ، مذاکرات آئین سے بالا نہیں ہو سکتے ہیں ، عدالت نے زمینی حقائق کے مطابق 14 مئی کی تاریخ دی ہے ،مذاکرات تو کئی ماہ اور برس چل سکتے ہیں، فلسطین اور کشمیر کے مسائل نسلوں سے زیر بحث ہیں ، حکومت کا یہ تاخیری حربہ تو نہیں ہے،اعتماد کا فقدان ہے،حکومت اپنی تجاویز دے جائزہ لیں گے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کہتے ہیں کہ راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے،عدالت نے 27 اپریل تک فنڈز فراہمی کا حکم دیا ہے، عدالتی حکم پر پہلے بھی فنڈز ریلیز نہیں کیے گئے ہیں ،پارلیمنٹ کی قرارداد آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتی،مناسب تجاویز دی گئیں تو راستہ نکالیں گے،انتشار چاہتے ہیں نہ ہی آئین کا انکار۔ مسلم لیگ( ن)کے رہنما سعد رفیق دوبارہ سے روسٹرم پر آ گئےاور بتایا کہ عدالت کو ڈیبیٹ کلب نہیں بنانا چاہتے، مل بیٹھیں گے تو سوال جواب کریں گے ، عدلیہ اور ملک کیلئے جیلیں کاٹیں اور ماریں بھی کھائی ہیں ،ا ٓئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ رہنے کے قائل نہیں ہیں ۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں کرنا چاہتے ، ملک میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے اور مقررہ تاریخ سے آگے بھی گئے ، آئین بنانے والے اس کے محافظ ہیں، آئین سے باہر جانے والوں کے سامنے کھڑے ہیں، یقین دہانی کرواتے ہیں طول دینے کی کوشش نہیں کریں گے ، سیاست میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے ۔ شیخ رشید روسٹرم پر آئے اور کہا کہ قوم عدالتی فیصلوں کو سلام پیش کرتی ہے ، عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہوگا ،یہ نا ہو کہ مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عید اکھٹی ہو جائے گی ، سیاستدان مذاکرات کا محالف نہیں ہوتا ہے لیکن مذاکرات با معنی بھی ہونے چاہیں ، ایک قابل احترام شیخصت نے آج بائیکاٹ کیا ہے ۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق روسٹرم پرآئے اور کہا کہ قوم کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں،کل پاک افغان بارڈر پر تھا، پوری رات سفر کر کے عدالت پہنچا ہوں ، قرآن کریم کی تلاوت سے عدالتی کاروائی کا آغاز کرنے پر مشکور ہوں میں ،اللہ کا حکم ہے کہ اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو ، اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہوجائے تو اللہ پر اعتماد کرو ،مذاکرات کرنا آپشن نہیں اللہ کا حکم ہے ، آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے۔ سراج الحق کاکہنا تھا کہ دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے، 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہو گیا ،1977 میں سعودی سفیر اور امریکی سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی تھی، مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لاء لگ گیا، 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پی پی پی کی لڑائی سے مارشل لاء لگا،آج ہمیں اسی منظر نامے کا سامنا ہے، امریکہ، ایران اور سعودی عرب اب پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ اپنا گھر خود سیاستدانوں نے ٹھیک کرنا ہے، نیلسن منڈیلا کیساتھ تیس سال لڑائی کے بعد مذاکرات کیے گئے، نیلسن منڈیلا نے اپنے ایک بیٹے کا نام ڈیکلار رکھا،پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں بنا کسی جنرل نے نہیں بنایا،آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ڈوبتا،خیبر پختونخواہ میں کسی نے پی ٹی آئی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا،دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر عوام حیران ہے،خیبر پختونخوا والوں نے خلاف روایت دوسری مرتبہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیا،ہم نہ پی ٹی آئی کیساتھ ہیں نہ پی ڈی ایم کیساتھ ہیں۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہمارا موقف کبھی بھی ایک کو اچھا لگتا ہے کبھی دوسری جماعت کو،سیاسی لڑائی کا نقصان عوام کو ہے جو ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ، 1 کلو آٹے کے لیے لوگ محتاج ہیں ، ایک من آٹے کی قیمت 6500 ہو گئی ہے ، عوام کے چہروں سے مسکراہٹ ختم ہو چکی ہے ، میں نے وزیراعظم اور سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی، مسائل کا حل صرف الیکشن ہیں اور کوئی راستہ نہیں ہے ،عمران خان کو کہا تھا کہ نہیں چاہتا ملک میں دس سال کیلئے مارشل لاء لگے ، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ میری عمر اس سے زیادہ نہیں ہے ، میں بھی یہ نہیں چاہتا ۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ کسی کی بھی ذاتی خواہش پر الیکشن نہیں ہوسکتے ہیں ، 90 دن سے الیکشن 105 دن پر آگئے ہیں ، اگر 105 دن ہوسکتے ہیں تو 205 دن بھی تو ہوسکتے ہیں،میڈیا نے پوچھا کیا اپ کو اسٹیبلشمنٹ نے اشارہ کیا ہے ؟، میرا مؤقف یہ ہے کہ عدلیہ ، افواج اور الیکشن کمیشن کو سیاست سے دور ہوناچاہیے ، ہر کسی کو اپنے مؤقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا ، مسائل کی وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن غیر سیاسی نہیں ہوئے ہیں ، سیاسی جماعتیں کبھی بھی الیکشن سے نہیں بھاگتیں ، ہمیں نگران حکومتوں نے ڈسا ہے تو منتخب حکومت کیسے شفاف انتخابات کرا سکتی ہے؟۔ سراج الحق کا چیف جسٹس سے مکالمہ سراج الحق نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا اور کہا کہ آپ پنجاب کے رہنے والے ہیں ، چیف جسٹس عمر عطابندیال نے پشتو میں جواب دیا کہ پشتو بھی سمجھتا ہوں میں ، ہم پر لیبل نہ لگائیں ، ہم پاکستانی ہیں ، سراج الحق کا کہنا تھا کہ گندم کی کٹائی اور حج کا سیزن گزرنے دیا جائے ، بڑی عید کے بعد ہی مناسب تاریخ پر الیکشن ہونا مناسب ہوگا ، عدالت یہ معاملہ سیاست دانوں پر چھوڑے اور خود کو سرخرو کرے، الیکشن کا شیڈول عدالت پنجاب میں دے چکی ہے ۔ فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے کہا کہ پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آج آخری دن ہے ،عدالتی حکم کے بعد بھی الیکشن کمیشن تاریخ نہیں بڑھا سکتا ہے ،پارٹی ٹکٹ کیلئے وقت میں اضافہ کریں۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 13 دن کی تاخیر ہوئی ہے تب عدالت نے حکم دیا ہے ، الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کیلئے بااختیار ہے،پولنگ کا دن تبدیل کیے بغیر بھی الیکشن کمیشن شیڈول تبدیل کر سکتا ہےالیکشن کمیشن سے رجوع کریں ،عدالت موقف سن لے گی،مسئلہ یہ ہے کہ رات 11 بجے عید اور رمضان کا اعلان ہو جاتا ہے ۔ عمران خان کے وکیل سلیمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ عید کی چھٹیوں میں زمان پارک میں آپریشن کا خطرہ ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کارروائی میں آپریشن کا معاملہ نہیں دیکھ سکتے،آپ نے متعلقہ عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔ اس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے تاحال حکم جاری نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ کا حکم آ جائے گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ایک تجویز یہ ہے کہ عدالت کاروائی آج ختم کردے،تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے ، آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آجائیں گے، آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کہ گئی ہے ، آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے اس لیے اس کی تشریح نہیں کی گئی ہے ، الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے،1970 اور71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں ، عدالت آئین اور قانون کی پابند بھی ہے ، سراج الحق، پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے ، بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے،ان کیمرہ بریفنگ دی گئی ہے لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی ، حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور ہی تھی ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یاد رکھنا چاہیئے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے ، یقین ہے کہ کوئی بھی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا،آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا ہے ،مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی ،دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، گزارش ہو گی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں، جولائی میں بڑی عید ہو گی تو اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں، عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے،جس طرح سیاسی قیادت کے دل میں پاکستان کے لئے درد ہے ہمارے دل میں بھی ہے۔ جسٹس منیب اختر نےڈی جی لاء الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہم ایک چیز واضح کر دیں کہ آپ لوگ پولنگ کی تاریخ آگے نہیں بڑھا سکتے ہیں ،آپ صرف پروگرام میں تبدیلی کر سکتے ہیں،سپریم کورٹ پولنگ کی تاریخ آگے بڑھانے کا اختیار رکھتی ہے ۔ فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایا کہ عید کے دوران مولانا فضل الرحمان سے بات کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلاول بھٹونے اچھی کوشش کی ہے، توقع ہے مولانا فضل الرحمان بھی لچک دکھائیں گے،آج 2 بجے تک بتائیں کیا پیشرفت ہوئی، عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی،کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا، عدالتی فیصلے کو اگنور نہیں کیا جاسکتا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے، عدالتی فیصلے ہٹانے کا طریقہ کار ہے، وہ 30 دن بھی گزر گئے، آج ظہر کے بعد پیشرفت سے آگاہ کریں جس کے بعد چیف جسٹس نے سماعت 4 بجے تک ملتوی کر دی۔