یہ قوانین عمران اینڈ کمپنی کے خلاف استعمال ہونے والے ہیں: مریم نواز
02:13 PM, 20 Feb, 2022
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے پاکستان الیکٹرانک ایکٹ ترمیمی آرڈیننس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ قوانین عمران اینڈ کمپنی کے خلاف استعمال ہونے والے ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے مریم نواز نے لکھا کہ حکومت جو بھی قوانین بنا رہی ہے کہنے کو تو میڈیا اور اپوزیشن کی آواز بند کرنے کے لیے ہیں، مگر یہ قوانین عمران اینڈ کمپنی کے خلاف استعمال ہونے والے ہیں، پھر نا کہنا بتایا نہیں! ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا۔ صدر مملکت کی جانب سے جاری آرڈیننس کے مطابق کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے پر قید 3 سے بڑھا کر 5 سال کردی گئی، شکایت درج کرانے والا متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہوگا۔ ترمیمی ایکٹ میں شخص کی تعریف شامل کردی گئی جس میں ایسوسی ایشن، ادارہ، تنظیم یا اتھارٹی شامل ہیں جو حکومتی قوانین سے قائم کی گئی ہوں، سیکشن 20 میں ترمیم سے کسی بھی فرد کے تشخص کے خلاف حملہ کی صورت میں قید 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کردی گئی۔ آرڈیننس کے مطابق کوئی بھی دانستہ طور پر عوامی سطح پر انفارمیشن سسٹم کے ذریعے ایسی معلومات نشر کرے جو غلط ہو اور اس سے کسی شخص کی ساکھ یا نجی زندگی کو نقصان پہنچے اس کی سزا 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی ہے جبکہ اس حوالے سے پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے۔ آرڈیننس کے مطابق جرم کو قابل دست اندازی قرار دیا گیا ہے، یہ ناقابل ضمانت ہوگا اور ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی، ٹرائل کورٹ ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائیکورٹ کو جمع کرائے گی اور ہائیکورٹ کو اگر لگے کہ کیس جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی۔ آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی صوبائی حکومتیں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا، ہر ہائیکورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کیلئے نامزد کرے گا۔ دوسری جانب پیکا آرڈیننس سے متعلق وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ میڈیا آزاد ہے جو چاہے تنقید کرے لیکن فیک نیوز نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھاکہ فیک نیوز کی سزا پانچ سال ہوگی، جرم ناقابل ضمانت اور قابل دست اندازی پولیس ہوگا، فیک نیوز کے معاملے پر ٹرائل 6 ماہ میں ہوگا۔ وزیر قانون کا کہنا تھاکہ یہ لوگ پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں، جعلی خبروں پر کسی کو استثنیٰ نہیں ہوگا، کچھ لوگ صحافی بنے ہوئے ہیں اصل میں یہ صحافی نہیں ہیں، جعلی خبروں کی روک تھام کیلئے یہ قانون ضروری تھا۔