شہدا کےنام کےپیچھےدھندا چلا رہے ہیں،چیف جسٹس پاکستان

11:56 AM, 20 Mar, 2024

پبلک نیوز: ریوینیو ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کی زمین کو بحریہ ٹاؤن میں ضم کرنے کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ  پلیز جھوٹ بولنا چھوڑ دیں، پیسہ کمانا ہے کمائیں، شہدا کی تذلیل مت کریں،آپ شہدا کے نام کے پیچھے چھپ کر دھندا چلا رہے ہیں،یہ کھیل ہم نے بہت بار دیکھا ہے۔

تفصیلا ت کے مطابق ریوینیو ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کی زمین کو بحریہ ٹاؤن میں ضم کرنے کے کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کررہے ہیں۔

چیف جسٹس نے مقدمہ کو لائیو چلانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ بہت طاقتور ہیں،انہوں نے سب خریدا ہوا ہے،میڈیا پر بھی انکے خلاف خبر نہیں چلتی،ایک معاملہ میں چار مرکزی کردار ہیں،پرویز مشرف ،پرویز الہی ،ملک ریاض اور زاہد رفیق کیس کے مرکزی کردار ہیں،یہ ہیں پاکستان کے اصل مالک۔

جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیئے کہ بحریہ ٹاؤن نے کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی سے زمین خرید کر ڈی ایچ اے کو فروخت کی،ڈی ایچ اے نے اس زمین پر عسکری 14 کے نام سے رہائشی کالونی بنا دی،کیا یہ بات  درست ہے؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈی ایچ اے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
وکیل نے کہا کہ ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی 2005 میں صدارتی آرڈر کے تحت قائم ہوئی،ڈی ایچ اے شہداء کے ورثا اور جنگ میں ہونے والے زخمیوں کو پلاٹس دیتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پلیز جھوٹ بولنا چھوڑ دیں، پیسہ کمانا ہے کمائیں، شہدا کی تذلیل مت کریں،آپ شہدا کے نام کے پیچھے چھپ کر دھندا چلا رہے ہیں، شہدا کا نام استعمال کر کے انکے نام پر پیسہ بنا رہے ہیں،اپ انکی عزت نہ کریں ہم شہدا کی عزت کریں گے،کتنا رس نکالیں گے شہدا کے نام کا؟یہ کھیل ہم نے بہت بار دیکھا ہے،وزیر اعلیٰ کون ہوتا ہے زمین الاٹ کرنے والا؟کیا وزیر اعلیٰ کا اختیار ہے؟۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایسا نہیں کیا جیسا وزیر اعلیٰ کر رہے ہیں،بحریہ ٹاؤن کا تو پوچھیں ہی مت وہ تو پاکستان چلا رہے ہیں،ریاست بھی بحریہ ٹاؤن کیساتھ کھڑی ہے،اسکو دھندہ نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں؟۔جب یہ معاہدہ ہوا اس وقت آرمی چیف کون تھا؟۔
وکیل نے کہا کہ اس وقت پرویز مشرف آرمی چیف تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ ہیں ہمارے سپہ سالار  اور وزیر اعلیٰ کون تھا؟
وکیل نے کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ تھے۔
چیف جسٹس پاکستا ن نے ریمار کس دیئے کہ پاکستان کے اصل مالک ہی یہ لوگ ہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوگئی۔

وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ سوسائٹی 1989میں وجود میں آئی،2005 میں سوسائٹی ضم ہوئی،16کروڑ میں زمین 2882 کنال خریدی گئی،2833کنال زمین بحریہ ٹاؤن کو ٹرانسفر ہوئی،زمین مزید آگے ڈی ایچ اے کو ٹرانسفر ہوئی،ریونیو سوسائٹی کیلئے ریٹائرڈ کرنل عبداللہ صدیق کو سوسائٹی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا،ریونیو سوسائٹی کی جنرل باڈی اجلاس میں اکثریت نے رائے دی کہ بحریہ ٹاؤن سے مرجر کیا جائے،304کے اجتماع میں سے صرف چودہ ممبران نے سوسائٹی کے بحریہ ٹاؤن میں ضم ہونے کی مخالفت کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمارے ساتھ لگتا ہے مذاق کر رہے ہیں،ایک کوآپریٹو ہاوسنگ سوسائٹی ایکٹ ہے اس کا سب پر اطلاق ہوتاہے،اس قانون کی کسی ایک شق سے مخصوص حالات میں کسی کو استثنی نہیں مل سکتا،حکومت پنجاب نے ماشا اللہ کہہ دیا پورا کا پورا قانون آپ پر لاگو نہیں۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پورا کا پورا قانون ٹوکری میں پھینک دو ہم آزاد ہیں،یہاں نظام بادشاہت کا ہے،ایک وزیر نے اس سارے معاملے کی مخالفت کی تھی، اس کے بعد وزیر اعلی سے منظوری کیسے ہوئی؟،سیکرٹری کے دستخط ہیں وزیراعلی نے خود دستخط کیوں نہ کیے؟،کیا اس لئے دستخط نہیں کرتے کہ کل پھنس جائیں گے؟۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کہیں سفر کریں ہر طرف ہاؤسنگ سوسائٹیاں دکھائی دیتی ہیں،زرعی زمین شاید اتنا مالی فائدہ نہیں پہنچاتی اس لئے لوگ سوسائٹیاں بنا رہے ہیں،یہ مگر ریاست کی ذمہ داری ہے زرعی زمین بچائے،سوسائٹی میں صرف سرمایہ کاری ہوتی ہے زمین پڑی رہتی ہے،جن کو حقیقت میں گھر کی ضرورت ہوتی ہے ان کی پہنچ سے ہی یہ زمین باہر ہو جاتی ہے،پاکستان گندم برآمد کرتا تھا اب درآمد کرتا ہے،دریا آلودہ کیے جا چکے ہیں۔

چیف جسٹس نے کیس کا حکمنامہ لکھوا دیا۔

حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ  بحریہ ٹاؤن میں کوآپریٹو سوسائٹی کے انضمام کا معاہدہ نافہم دکھائی دیا،بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کہا وہ متاثرین کے تحفظات دور کرنے کو تیار ہیں۔

سپریم کورٹ نے زرعی زمین کو کمرشل میں بدلنے پر بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سے جواب طلب  کرتے ہوئے فریقین کو آپس میں بیٹھ  کر متاثرین کا ازالہ کرنے کی راہ نکالنے کا وقت دے دیا۔

مزیدخبریں