سینیٹ سے 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور

05:33 PM, 20 Oct, 2024

(ویب ڈیسک ) سینیٹ کے ایوان نے آئین میں 26 ویں ترمیم دو تہائی اکثریت سےمنظور کرلی۔65 ارکان نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔

چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا۔26ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں پیش کردی گئی۔ سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات موخر کرنے کی تحریک پیش کی ،  وقفہ سوالات کو موخر کر دیا گیا۔جس کے بعد وزیر قانون نے آئینی ترامیم پر ووٹنگ کیلئے تحریک پیش کی، جسے  ایوان نے اکثریت رائے سے منظور کرلی۔

اس دوران اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ رانا ثناء اللہ اور اٹارنی جنرل کو باہر بھیجا جائے۔اس پر حکومتی اراکان سینیٹ نے کہا کہ یہاں بیٹھنا ان کا آئینی حق ہے۔بعد ازاں پی ٹی آئی ، سنی اتحاد کونسل ، ایم ڈبلیو ایم کے ارکان ایوان سے چلے گئے۔

بعد ازاں سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل مکمل ہوا۔جس میں سینیٹ نے  26 ویں آئینی ترمیم کی تمام 22 شقوں کی منظوری دی۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے  کہا کہ   آئینی ترمیم کیلئے کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی میں کافی بات چیت کی گئی، اپوزیشن نے بھی کمیٹی میں بحث میں حصہ لیا اور ایک مسودہ پر اتحادی جماعتوں کا اتفاق ہوا، یہ ایک متفقہ بل ہے جس پرکامران مرتضیٰ کی ترامیم بھی ہیں۔

اس کے بعد اعظم تارڑ نے چھبسویں ایینی ترمیم پیش کرنے کی سپلمنٹری ایجنڈے میں پیش کرنے کی تحریک پیش کی۔

وزیر قانون نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار 18ترمیم میں تبدیل کیا گیا، 19ویں ترمیم نے آئین کے توازن کو بگاڑا، 19ویں ترمیم عجلت میں منظورکی گئی۔ججز کی تقرری پر وکلا تنظیموں اور پارلیمنٹ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہاکہ  آیین کے 175 اے میں ترامیم کی جائیں، جوڈیشل کمیشن میں اب چار پارلیمنٹری ممبر ہونگے۔جوڈیشل کمیشن میں اب چیف جسٹس اور چار ججز کے علاوہ اراکین پارلیمنٹ بھی ہونگے۔اس طرح کے بینجز میں سول سوسا ئٹی  کو بھی شامل کیا جاتا ہے، اقلیتوں اور ٹیکنوکریٹ کی بھی نمایندگی کی تجویز ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ماضی میں ہم نے اٹھ صفر سے فیصلے کیے اور ایک جج صاحب نے ایک اڈر سے اڑے دیے،عمر قید اور سزاے موت کے قیدیوں کی اپیلیں کئی سال زیر التو ہوتی ہیں، ہماری عدلیہ کا دنیا میں کون سا نمبر ہے وہ میں بتانا نہیں چاہتا۔

وزیر قانون نے کہا کہ  یہ غلط ہے کہ یہ ترمیم قاضی فایز عیسی کے لیے کی جا رہی ہے، تین مرتبہ چیف جسٹس سے ملاقات کی اور تینوں مرتبہ انہوں نے توسیع لینے سے انکار کیا، منتخب وزیراعظم کو گھر بھجوایا گیا جیسے جناب چیئرمین  کو بھی بھیجا گیا،یہ تجویز بھی اپوزیشن نے دی کہ آئینی عدالت کی بجائے آئینی  بینچ بنانے کی تجویز دی، بلاول بھٹو بھی اس پر متفق ہیں اس لیے بینچ بناے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ  چیف جسٹس کا اب تقرر ہوگا تین ناموں میں فیصلہ ہوگا، چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد تین سال ہوگی ،پنجاب میں ہم یہ کر چکے ہیں ہائی کورٹ کے تین ججوں میں سے ایک کو چیف جسٹس بنایا۔ بارہ رکنی کمیٹی دوتہائی اکثریت سے فیصلہ کرے گی،نامزد رکن کی سمری وزیراعظم صدر کو بھجیں گے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ  صوبوں اوراسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی آئینی بینچ بنایا جائے گا۔صوبے قرارداد پاس کرکے بینچ بناسکیں گے۔جے یو آئی کی جانب سے پانچ ترامیم شامل کر رہے ہیں،اسلامی نظریاتی کو نسل شرعی عدالت اور سود کے حوالے سے جے یو آئی کی ترامیم ہیں۔ ہماری خواہش تھی کہ ساری اپوزیشن  بھی ووٹ بھی دے، جلد انصاف اور شفافیت کے لیے یہ ترامیم کر رہے ہیں۔

سینیٹر علی ظفر  کا اظہار خیال: 

سینیٹر علی ظفر  نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئین  قوم کو اکٹھا کرتا ہے، آئین  لوگوں کو جدا نہیں کرتا،آئین  رضا مندی اور اتفاق رائے سے بنایا جاتا ہے،1956 کا آئین مسلط ہوا اور مارشل لا لگا۔1962 کا آئین بھی مسلط ہوا اور مارشل لا لگا۔ آئینی ترمیم بھی ایسا نقصان دے  سکتی ہے کہ   ملک 20، 26  سال پیچھے چلا جائے۔

انہوں نے کہا کہ  یہ جو آئینی ترمیم لائی جا رہی ہے ہم کچھ سینیٹرز آ ئے ہیں، باقی کو خدشہ ہے کہ ان سے زبردستی ووٹ لیا جا سکتا ہے، ہمارے کچھ اراکین اب بھی غائب ہیں ، میری نظر میں جو کچھ ہورہا ہے یہ جرم ہے، زبردستی ووٹ نہیں لیا جاسکتا۔ اگر ہمارے لوگوں کو استعمال کیا گیا آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت ایک ڈرافٹ دے رہے ہیں، جن میں ہمارے سینیٹروں کے دستخط ہیں اور اگر کوئی ووٹ دے تو اس کو گنا نہ جائے.

علی ظفر نے کہا کہ  ہم پارلیمانی کمیٹی ضرور  گئے  لیکن اس کا حصہ نہیں بنے، ہم نے کوئی ترمیم یا تجویز کمیٹی میں نہیں دی یہ ریکارڈ پر رہے،جو مسودہ پہلے آیا تھا، جس میں اسی ترامیم تھی، جس میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی،آئین کے آرٹیکل 8 میں ترمیم تھی جس کو مولانا نے کالا ناگ قرار دیا تھا،ابھی جو مسودہ آیا ہے بہت سارے اراکین سینیٹ نے پڑھا ہی نہیں ہوگا،اس مسودے میں بھی بہت غلطیاں ہیں جو مستقبل میں نقصان دہ ہونگی۔

مزیدخبریں