(ویب ڈیسک ) وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کیے گئے 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کے نکات سامنے آگئے ہیں ۔
منظور شدہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا، آئینی بینچز میں تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے اور آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔
مسودے کے مطابق آرٹیکل 185کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچزکے دائرہ اختیارمیں آئیں گے، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پرکیا جائے گا اور پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کی سفارش پرچیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، کسی جج کے انکارکی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا اور چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنے گی جس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی، پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی 4 ارکان سینیٹ سے ہوں گے، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت 3 سال ہوگی۔ چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کرنے کی تجویز دی گئی۔
مسودہ کے متن کے مطابق آرٹیکل184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طورپرکوئی ہدایت یا ڈیکلیئریشن نہیں دے سکتی، آرٹیکل186 اےکےتحت سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے کسی بھی کیس کوکسی دوسری ہائیکورٹ یا اپنے پاس منتقل کرسکتی ہے، ججز تقرری کمیشن ہائیکورٹ کے ججزکی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔
مسودے میں آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔ مسودے میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اورججزکی تعداد کا تعین کرے گا، آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہوتمام صوبوں سے مساوی ججزتعینات کیے جائیں گے، آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچزکے پاس ہوگا۔
مسودہ کے متن کے مطابق آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچزکے دائرہ اختیارمیں آئیں گے، آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا، آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، چیف جسٹس کا تقررخصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا اور سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا۔
مسودے کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں 4 سینیئرترین ججز شامل ہوں گے، وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے، کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بارکونسل کا نامزد کردہ وکیل 2 سال کیلئے کمیشن کا رکن ہوگا، دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینیٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے اور سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیرمسلم کو بھی 2 سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائےگا۔
مسودہ میں آرٹیکل 48 میں ترمیم تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدرکو بھجوائی گئی ایڈوائس پرکوئی عدالت،ٹریبونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھاسکتی۔