ویب ڈیسک: پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت سازی کے لیے قائم کردہ مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان بات چیت کا چھٹا دور منگل کو ہوا لیکن مذاکرات کے کامیاب ہونے کا کوئی اعلان نہ ہوسکا۔
تفصیلا ت کے مطابق منگل کو ہی بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ کے احاطے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے حکومت سازی سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے سخت لب و لہجہ اختیار کیا اور کہا کہ وہ مسلم لیگ ن کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اپنی شرائط پر ووٹ دیں گے۔
بلاول کی اس گفتگو کے بعد صحافتی و سیاسی حلقوں میں یہ کہا جانے لگا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت سازی کے لیے مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے اور مذاکراتی عمل ناکامی کے قریب آ پہنچا ہے۔
مگر منگل کی شب اسلام آباد کے کچھ صحافیوں کو ذرائع نے بتایا کے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ایک اہم شخصیت کے گھر پر ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات کی باضابطہ طور پر دونوں جماعتوں نے تصدیق نہیں کی۔ البتہ ذرائع نے بتایا کہ اس ملاقات نے جادوئی کام دکھایا اور حکومت سازی کے تمام امور پر اتفاق کر لیا گیا۔
مذکورہ ملاقات کی اطلاعات کے کچھ دیر مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے شہباز شریف اور بلاول بھٹوزرداری کے درمیان سینیٹر اسحاق ڈار کے گھر میں ملاقات ہونے کی تصدیق کی۔
بیس فروری کی شب رات 10 بج کر 55 منٹ پر پیپلزپارٹی سیکریٹریٹ نے میڈیا کو یہ دعوت نامہ بھیجا کہ زرداری ہاؤس اسلام آباد میں بلاول بھٹو زرداری ساڑھے 11 بجے ہنگامی پریس کانفرنس کریں گے، تو میڈیا میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔
ایسا تاثر اس لیے دیا جا رہا تھا کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوتے تو مشترکہ پریس کانفرنس کی جاتی لیکن جب میڈیا زرداری ہاؤس اسلام آباد پہنچا تو معلوم ہوا کہ مسلم لیگ ن کے میاں شہباز شریف، اسحاق ڈار، سردار ایاز صادق، ملک احمد خان، مصدق ملک پر مشتمل وفد بھی مشترکہ پریس کانفرنس کے لیے زرداری ہاؤس پہنچ چکا ہے۔
دونوں جماعتوں کی قیادت نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں ان کے نمبر پورے ہو چکے ہیں اور شراکتِ اقتدار کے معاہدے کے تحت دونوں جماعتیں آگے بڑھیں گی۔
محسوس کیا جا رہا ہے کہ قومی اسمبلی میں اس بار حکومت کو سخت اپوزیشن کا سامنا کرنا ہوگا۔ قومی اسمبلی میں حکومتی ارکین سے تعداد کے لحاظ سے تھوڑا ہی تعداد اپوزیشن اراکین کی کم ہوگی۔ نا چاہتے ہوئے بھی اپوزیشن لیڈر کا عہدہ پی ٹی آئی کو دینا ہوگا۔ صرف اتنا ہی نہیں اپوزیشن کو ایک اور عہدہ دینا ہوگا۔
میثاقِ جمہوریت کے تحت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ بھی اپوزیشن لیڈر کو ملنا ہے۔ یہ وہ فورم ہے جہاں حکومتی اخراجات پر اعتراضات آتے ہیں۔
پارلیمان کی یہ روایت رہی ہے کہ اپوزیشن لیڈر جس وقت بات کرنا چاہے اسے فلور دیا جاتا ہے۔ اس طرح قومی اسمبلی میں اپوزیشن ہر عوامی ایشو پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے سکتی ہے۔