ویب ڈیسک: حکومت کے سامنے نیٹ میٹرنگ کے حوالے سے ایک نئی تجویز آئی ہے جس کے تحت نیٹ میٹرنگ صارفین کے جمع ہونے والے یونٹس اب انہیں تین ماہ کے بجائے ایک ماہ میں ہی خرچ کرنا ہوں گے، ایسا نہ کر پانے پر یہ یونٹس ضائع ہو جائیں گے۔
تفصیلا ت کے مطابق اس فیصلے پر عمل کیا گیا تو بڑے سولر سسٹم نصب کرنے والوں کو نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا اور بیٹری بینک بڑھانے کی ضرورت پیش آئے گی۔
جرمنی کے مرکزی ترقیاتی ادارے دی ڈوئچ گیزلشیفٹ فیور انٹرنیشنل سُویمناربائٹ کے زیر اہتمام نیٹ میٹرنگ کے ذریعے بجلی کی تقسیم سے متعلق چیلنجز اور حل کے موضوع پر منعقدہ سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین نے نیٹ میٹرنگ سے متعلق خدشات اور اُنہیں دور کرنے کے طریقوں کا اظہار کیا۔
اس سیمنار کے ذریعے دی پاور ڈویژن، نیپرا، سی پی پی اے، پاور ڈسٹریبیوٹنگ یوٹیلیٹیز (ڈسکوز)، دی پاور انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی، پاکستان سولر ایسوسی ایشن اور سولر ای پی سی کمپنیز کو ایک دوسرے کے نزدیک آنے اورتبادلہ خیالات کا موقع ملا۔ ماہرین نے ایسے حل تجویز کیے جن میں ان کے خیال میں کسی بھی فریق کے لیے نقصان کا پہلو نہیں۔
اس وقت نیٹ میٹرنگ کا جو طریقہ رائج ہے اس کے تحت سولر سسٹم سے پیدا ہونے والی اضافی بجلی گرڈ کو چلی جاتی ہے، طے شدہ طریقِ کار کے تحت ہر تین ماہ کے اختتام پر اضافی یونٹس کی مالیاتی قدر معلوم کرکے زیادہ سے زیادہ یونٹس کی کھپت ایڈجسٹ کردیا جاتا ہے۔ سادہ لفظوں میں نیٹ میٹرنگ صارف کے پاس اپنے پیدا کردہ اضافی یونٹس استعمال کرنے کیلئے تین ماہ کا وقت ہوتا ہے۔ تین ماہ بعد جب ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے تو اضافی یونٹس کو رقم میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔
یونٹس استعمال کرنا صارف کے لیے فائدے مند ہے کیونکہ بجلی کمپنیاں صارف کو اپنے پاس سے جو بجلی فراہم کرتی ہیں اس پر ٹیکسز عائد ہوتے ہیں اور فی یونٹ 50 روپے کا پڑتا ہے۔ جب کہ نیٹ میٹرنگ صارف کی اضافی یونٹس کو جب رقم میں تبدیل کیا تو صرف بجلی کی قیمت لگائی جاتی ہے اور فی یونٹ20 روپے سے بھی کم کا ہوتا ہے۔
سیمنار کے شرکا نے کہا کہ اضافی یونٹس کو آگے لے جانے کے طریقِ کار باعث نیٹ میٹرنگ والے صارفین ضرورت سے زیادہ سولر انسٹال کرتے ہی ہیں تاکہ وہ تین ماہ گرڈ کی بجلی کی مد میں ادائیگی سے بچ سکیں۔
ڈسکوز کے علاوہ چند ماہرین نے بھی تجویز کیا کہ اس سہولت کو سہہ ماہی کے بجائے ماہانہ کردیا جائے کہ اس صورت میں سیلف کنزمپشن کی حوصلہ افزائی ہوگی اور بیٹری انرجی اسٹوریج سسٹم بہتر بنانے کی تحریک بھی ملے گی۔
ڈسکوز کے نمائندوں نے نیٹ میٹرنگ کی سرگرمیوں کے لیے تمام ڈسکوز کا ایک مشترکہ خصوصی سیل بنانے کی تجویز بھی پیش کی۔ یہ سیل سولر سسٹم، ہوسٹنگ کیپیسٹی اور تکنیکی معاملات دیکھے گا۔ یہ سیل زیادہ اور کم ارتکاز والے علاقوں میں نیٹ میٹرنگ کنکشنز کے حوالے سے سفارشات بھی پیش کرے گا۔
اپریل 2024 تک 2 ہزار میگا واٹ کے نیٹ میٹرنگ والے سیٹ اپ لگائے جاچکے تھے اور ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد نیٹ میٹرنگ سسٹم کے تحت پیدا ہونے والی سالانہ توانائی کے لیے ڈسٹری بیوشن کے اشوز پر بھی سیمینار میں بحث کی گئی۔ اس میں ہائی کنزیومر وولٹیج، ڈسٹری بیوشن ٹرانفسارمر پاور ریٹنگز، پاور کوالٹی اور غیر قانونی طور پر سولر سسٹمز کی تنصیب کی صورت میں اضافی بجلی کی پیداوار سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں شامل تھیں۔
سمینار میں صارفین کے لیے نیٹ میٹرنگ والے سسٹمز کی تنصیب کے لیے دی جانے والی پاور لمٹ میں کمی کی بھی تجویز پیش کی گئی۔ موجودہ قواعد کے تحت تھری فیز صارفین کے لیے نیٹ میٹرنگ کی سہولت میسر ہے جس میں صارف کے لیے منظور شدہ لوڈ سے ڈیڑھ گنا تک کی کنکشن لمٹ ہے۔
ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے حکام نے بتایا کہ نیٹ میٹرنگ والے سولر سسٹم زیادہ لگنے کے باعث ٹرانسفارمرز میں بجلی واپس پہنچ رہی ہے۔ گرمیوں میں تو یہ صورتِ حال پیچیدہ نہیں ہوتی مگر سردیوں میں جب بجلی ک استعمال کم رہ جاتا ہے تب سسٹم میں زیادہ بجلی آنے سے تکنیکی پیچیدگی پیدا ہوتی ہے۔ مارچ، اپریل، اکتوبر اور نومبر میں ایسا ہوتا ہے۔ شدید سردی میں ملک کے بہت سے حصوں میں شدید دھند اور مجموعی طور پر بادلوں کے چھائے رہنے سے سولر پاور کی پیداوار گھٹ جاتی ہے۔ یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ ٹرانسفارمرز میں واپس آنے والی بجلی کے حوالے سے خبردار کرنے کا نظام لگایا جانا چاہیے۔
ماہرین نے تجویز پیش کی کہ ڈسکوز بھی نیٹ میٹرنگ والی تنصیبات پر اسمارٹ میٹر لگائیں تاکہ غیر قانونی طور پر اضافی تنصیبات کا مسئلہ موثر طور پر حل کیا جاسکے۔ اسمارٹ میٹرز کی تنصیب سے بجلی کے تقسیم کار ادارے اپنے نیٹ ورک پر اچھی طرح نظر رکھ سکیں گے۔
روزنامہ بزنس ریکارڈر کے مطابق سیمینار کا بنیادی مقصد ملک بھر میں اندھا دھند لگائے جانے والے سولر سسٹمز اور نیٹ میٹرنگ کے ذریعے پیدا ہونے والی تمام تکنیکی پیچیدگیوں کا احاطہ کرنا اور اس حوالے سے معقول سفارشات مرتب کرنا تھا تاکہ بجلی کے پیداکار و تقسیم کار اداروں اور عام صارفین کے لیے ایسی صورتِ حال پیدا کرنے میں مدد ملے جس میں فائدہ سب کا ہو اور نقصان کسی کا بھی نہ ہو۔