ویب ڈیسک: بنگلہ دیش میں پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ماہِ رواں کے دوران ہزاروں طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں ’فریڈم فائٹرز‘ کی اولاد کے لیے 30 فیصد کوٹے کے خلاف سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایک ہائی کورٹ نے 2018 میں ختم کیا جانے والا کوٹہ بحال کردیا تھا۔ جب حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو اُس نے 13 جولائی کو کوٹے کی بحالی روک دی تھی۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے ایک بار پھر سماعت کی اور طلبہ کو اطمینان دلانے کے رولنگ دی کہ کوٹہ بحال نہیں کیا جائے گا مگر اس کے باوجود ملک بھر میں طلبہ کا احتجاج جاری ہے۔
طلبہ کے ایک گروہ کا کہنا ہے جب تک حکومت مطالبات کی منظوری کا حکم نامہ جاری نہیں کرتی، احتجاج ختم نہیں ہوگا۔ 10 دن کے احتجاج کے دوران بنگلہ دیش میں طلبہ سمیت 150 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
اس تحریک کی پشت پر کارفرما عوامل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دنیا بھر کے میڈیا آؤٹ لیٹ طلبہ تحریک کی پشت پناہی کرنے والوں کے بارے میں جاننے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی جماعتوں نے ’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ کے مصداق طلبہ تحریک کو غنیمت جانتے ہوئے اُس کی بھرپور پشت پناہی شروع کردی ہے تاکہ وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو کمزور کیا جاسکے۔
شیخ حسینہ 2009 سے وزیرِاعظم ہیں۔ جنوری 2024 میں وہ پانچویں بار وزیرِاعظم بنیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے اُن پر انتخابی دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔
سپریم کورٹ کی یقین دہانی اور فوج کے طلب کیے جانے کے باوجود بنگلہ دیش میں طلبہ کا احتجاج تھم نہیں رہا تو اب سیاسی مبصرین اندازہ لگا رہے ہیں کہ اس تحریک کی پشت پر کون یا کون کون ہوسکتا ہے۔
اب تک طلبہ کے کئی لیڈر، انسانی حقوق کے کارکن اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دان گرفتار کیے جاچکے ہیں مگر پھر بھی ملک گیر احتجاجی تحریک کہیں سے بھی رُکتی یا کمزور پڑتی دکھائی نہیں دے رہی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں غیر معمولی مہنگائی ہے۔ لوگ مہنگائی، بے روزگاری اور افلاس سے تنگ آچکے ہیں۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت میں بھارت سے تعلقات گہرے ہوئے ہیں جس پر بنگلہ دیشیوں کی اکثریت نالاں ہے۔ ہر معاملے میں بھارت کے آگے جھکنے کی شیخ حسینہ کی پالیسی نے عام بنگلہ دیشیوں کے دلوں میں شدید نفرت بھردی ہے۔ معاشی مشکلات کا حل تلاش کرنے کے بجائے ایک عشرے سے مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور افلاس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔
شیخ حسینہ واجد نے مسلم دنیا بالخصوص پاکستان سے روابط بہتر بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ بنگلہ دیش کے ہزاروں گھرانے منقسم ہیں یعنی ان کے لوگ پاکستان میں بھی رہتے ہیں۔ پاکستان سے کشیدہ تعلقات کے ہاتھوں ان ہزاروں گھرانوں کو بھی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ افغانستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی پاکستان کے خلاف شدید نفرت کی فضا تیار کی گئی ہے۔
مہنگائی، کرپشن اور افلاس کی چکی میں پسنے والے بنگلہ دیشیوں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے کوئی معقول موقع درکار تھا۔ طلبہ تحریک نے وہ بھرپور موقع فراہم کردیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کوٹہ سسٹم کے بارے میں سپریم کورٹ کے واضح اعلان اور یقین دہانی کے باوجود عوام سڑکوں سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ بیشتر مقامات پر طلبہ کی قیادت میں عوام نے فوج کا سامنا کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ فوج کو حکم دیا جاچکا ہے کہ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر آنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے مگر فوج اور نیم فوجی دستوں نے اب تک اس حکم کی تعمیل نہیں کی۔ چند ایک مقامات پر انتہائی نوعیت کی صورتِ حال پیدا ہونے پر پولیس اور فوج نے گولی چلائی ہے۔