”آئرلینڈ میں بھی الیکشن خفیہ بیلٹ سے ہوتا ہے“

10:34 AM, 23 Feb, 2021

شازیہ بشیر

اسلام آباد (پبلک نیوز) سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے کے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ہمارا آئرلینڈ کا آئین ایک جیسا ہے، آئرلینڈ میں بھی الیکشن خفیہ بیلٹ سے ہوتا ہے۔

اہم مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ آئرش سپریم کورٹ کا بھی اس معاملہ پر فیصلہ موجود ہے، اس نقطہ پر اٹارنی جنرل کو سننا چاہیں گے۔

چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا آئرلینڈ کی پارلیمنٹ کے دو ہاوس ہیں، آئرلینڈ میں لوئر ہاؤس کے انتحابات پاپولر ووٹ سے ہوتے ہیں، آئرلینڈ میں پاپولر ووٹ خفیہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئرلینڈ میں شہری ووٹرز کا حق کبھی اوپن نہیں ہوتا اور آئرش سپریم کورٹ کے فیصلے میں شہری ووٹ کی بات کی گئی ہے جبکے اپر ہاؤس کا الیکشن ڈائریکٹ نہیں ہوتا۔

پیپلز پارٹی کے وکیل سینیٹر رضا ربانی نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سوال اَپر ہاؤس یا لوئر ہاؤس کے الیکشن کا نہیں، آرٹیکل 226 سیکرٹ بیلٹ کی بات کرتا ہے، الیکشن ایکٹ 2017 بھی آئین کی کمانڈ پر بنایا گیا ہے، الیکشن ایکٹ نے بھی آئین کہ کمانڈ سے جنم لیا ہے۔

چیف جسٹس نے رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی بات سیکرٹ بیلٹ کی ہے، صدارتی انتحابات کے رولز آپ کے موقف کو کیسے سپورٹ کرتے ہیں؟

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ تمام قوانین کا جنم آئین سے ہوتا ہے، یہ حقیقت ہے کہ صدارتی الیکشن کے لئے کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔ چیئرمین سینٹ، اسپیکر اسمبلی کا الیکشن انکے عہدے کا انتخاب ہوتا ہے۔

سینیٹر رضا ربانی نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ امریکی کونسل آف اسٹیٹ میں ہر ریاست کی نشستوں کی تعداد ایک جیسی نہیں ہے، امریکی کونسل آف اسٹیٹ میں آبادی کے لحاظ سے نشستیں مختص کی گئی ہیں، آرٹیکل 59 میں کہیں نہیں لکھا سینٹ کا الیکشن قانون کے مطابق ہو گا۔ سینیٹ کبھی تحلیل نہیں ہوتی ارکان ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ قانون میں جو بھی درج ہے اس پر نیک نیتی سے عمل کرنا ہوتا ہے، قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے، قانون پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں۔

رضا ربانی نے کہا کہ جہاں ووٹوں کی خرید و فروخت ہو گی قانون اپنا راستہ بنائے گا، شواہد کے بغیر سیٹوں کی تعداد میں فرق کو ووٹ فروخت کرنا نہیں کہہ سکتے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن اتحاد کی گنجائش سیاسی جماعتوں میں ہمیشہ رہتی ہے۔

رضا ربانی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی سیکریسی متاثر نہ ہو تو الیکشن کمیشن ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ پھر ایسا طریقہ بھی بتا دیں کہ ووٹ دیکھا بھی جائے اور سکریریسی بھی متاثر نہ ہو؟ اس پر رضا ربانی نے کہا کہ رشوت لینا یا لینے پر آمادگی ظاہر کرنا ووٹ دینے کے پہلے کے مراحل ہیں، ووٹ کے لیے پیسے لینے والا ووٹنگ سے پہلے کرپشن کر چکا ہوتا ہے جبکہ کرپشن ووٹنگ سے پہلے ہوتی ہے تو اسکے لیے ووٹ دیکھنے کی ضرورت نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اگر معاہدہ ہو کہ آدھی رقم ووٹ ڈالنے کے بعد ملے گی تو پھر کیا ہو گا؟ ووٹ ڈالنا ثابت ہو گا تو ہی معلوم ہو گا کہ رقم الیکشن کے لئے دی گئی۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے رضا ربانی کو کل دلائل مکمل کرنے کیلئے آدھے گھنٹے کا وقت دیدیا۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے وکیل فاروق نائیک کو بھی کل آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے رضا ربانی کے دلائل اپنا لیے، مسلم لیگ ن کے بیرسٹر ظفراللہ کو بھی آدھا گھنٹہ ملے گا اور دونوں مذہبی سیاسی جماعتوں کے وکیل الگ دلائل نہیں دینگے۔

مزیدخبریں