ویب ڈیسک:شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے فریقین کو سوالات کو جوابات تین ہفتوں جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام فریقین تسلیم کر رہے ہیں مکمل انکوائری نہیں ہوئی۔
سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔ لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت شامل ہیں۔
دوران سماعت خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ میں فیض حمید اور عرفان رامے کا وکیل ہوں۔ وسیم سجاد نے بتایا کہ وہ سابق چیف جسٹس ہاٸی کورٹ انور کانسی کے وکیل ہیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ ان کے معاملے کی فیٸر انکواٸری ہونی چاہیے۔ سپریم جوڈیشل کونسل صدر پاکستان کو بنا انکواٸری کوٸی رپورٹ پیش نہیں کر سکتی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کے موکل پر الزام کیا ہے؟ حامد خان نے بتایا کہ ان پر تقریر کرنے کا الزام ہے۔ انہوں نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ ان کے خلاف حکم کو ختم کرے۔
چیف جسٹس نے فیض حمید کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ الزامات کو تسلیم کرتے ہیں یا مسترد؟ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سابقہ رجسٹرار نے جواب جمع کروادیا ہے۔ اب مقدمہ کی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے۔
حامد خان نے کہا کہ آنے والے جوابات سے میرا کیس واضح ہو گیا۔ کونسل نے کوئی انکوائری نہیں کی تھی۔ انکوائری ہوتی گواہان پیش ہوتے جرح کی اجازت دی جاتی۔ آرٹیکل 209(6) کے تحت کونسل صدر کو بغیر تحقیقات مجھے ہٹانے کی سفارش نہیں کر سکتی تھی۔ کونسل کا شوکت صدیقی کو ہٹانے کا حکم کالعدم کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے کہا تھا فیکچول انکوائری ہی نہیں ہوئی تھی۔ اب سپریم کورٹ کا یہ پانچ رکنی بنچ کیسا فیصلہ دے سکتا ہے؟ حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کی کارروائی غیر آئینی قرار دے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ایک سکے کو ہوا میں پھینک کر فیصلہ نہیں کر سکتے، اگر الزامات سچ ثابت نہیں ہوتے تو کیا ہوگا؟ اگر یہ طے نہیں ہوتا کہ الزامات سچے ہیں یا جھوٹے؟ اس کے بغیر ہم کس طرف جا سکتے ہیں؟ ہم ان کیسز کے ذریعے مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ الزامات پبلکلی لگائے گئے۔ اگر الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں انکوائری کے بعد تو کیا جج کو ہٹانے کا فیصلہ برقرار رہے گا؟ ہم نے جن پر الزامات لگائے گئے ان کو فریق بنانے کا کہا۔ سچ کی کھوج کون لگائے گا اب؟ ہم مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ دوسری طرف سے یہ بات ہو سکتی ہے کہ الزامات کو پرکھا ہی نہیں گیا۔
حامد خان نے کہا کہ حل یہ ہے کہ کونسل کی کارروائی اور صدر مملکت کی جانب سے جج کو ہٹانے کی کارروائی کالعدم قرار دی جائے۔ سپریم کورٹ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کیلئے کمیشن تشکیل دے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم کیسے کمیشن تشکیل دیں؟ کیا ہم معاملہ دوبارہ کونسل کو بھیج دیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سمجھ لیں کہ الزامات درست ہیں۔ لیکن ایک جج کیلٸے مناسب تھا کہ ایسے بیان دیتے۔ آپ تقریر سے تو انکاری نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی جج تو ایسی تقریر کرنے کی اجازت ہے؟
حامد خان نے کہا کہ تقریر سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بلاوجہ الزام لگانا کسی حکومت کے ماتحت ادارے پر بھی اچھی بات نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جس پر الزام لگایا گیا میں اسے ادارہ نہیں بلکہ حکومت کے ماتحت ادارہ کہوں گا۔ حامد خان نے استدعا کی کہ پوری انکوائری کالعدم قرار دیکر معاملہ دوبارہ کونسل کو بھیجا جائے۔
فیض حمید کے وکیل نے کہا کہ معاملہ دوبارہ کونسل کو نہیں بھیجا جا سکتا۔ شوکت عزیز صدیقی کی بطور جج مدت بھی ختم ہو چکی۔ جو الزامات لگائے گئے وہ باتیں نہ کونسل کے جوابات میں کہی گئیں نہ ہی تقریر میں آئیں۔ شوکت عزیز صدیقی کی اپنی تقریر ہی کافی ہے کہ انہوں نے مس کنڈکٹ کا مظاہرہ کیا۔ تقریر میں عدلیہ کی تضحیک کی گئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تقریر کرکے کیسے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی، متعلقہ شق دکھائیں؟ آپ ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ پڑھ لیں۔ تقریر کو پبلسٹی نہیں بلکہ نشاندہی کرنے والے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر ایک ادارے میں کرپشن ہو تو کسی جج کو کیا کرنا چاہیے؟
فیض حمید کے وکیل نے کہا کہ اسے اپنے چیف جسٹس کو بتانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی چیف جسٹس کی بات تسلیم کرنے اور کسی جج کی بات تسلیم نہ کرنے کا کوئی معیار تو ہونا چاہیے۔ قوم اب کافی کچھ برداشت کر چکی ہے۔ ہماری تشویش ادارے کی ساکھ سے متعلق ہے۔ قوم کو سچ کا علم ہونا چاہیے۔ کیا آپ نہیں چاہتے سچ سامنے آنا چاہیے؟ ہم کارروائی کو کیسے آگے بڑھائیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قوم کو بھی پتہ چلنا چاہیے الزامات سچے ہیں یا جھوٹے۔ ادارے لوگوں کی خدمت کیلئے ہوتے ہیں۔ یہ کیس عدلیہ کی خودمختاری سے متعلق ہے۔ عدلیہ عوام کے پیسوں سے چلتی ہے۔ جوڈیشل کونسل نے تو بغیر کارروائی کیے جج کو ہٹا دیا۔ اگر کوئی جج مجھے پسند نہیں تو کیا اسے بغیر انکوائری ایسے ہٹا دیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو تو تب بھی قانونی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔ قانونی تقاضے پورے کرنا لازم ہے۔
اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے۔ اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کو بغیر انکوائری ہٹانا طے شدہ قانونی تقاضوں کے منافی ہے۔ عافیہ شہر بانوں کیس میں کہا گیا جب جج کو ہٹایا جائے یا استعفیٰ دیدیا جائے تو کارروائی نہیں ہو سکتی۔ ہم نے جج کو ہٹانے یا استعفیٰ دینے پر کارروائی نہ کرنے کی پابندی کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کردی ہے۔ سپریم کورٹ عافیہ شہر بانوں کیس پر نظرثانی کرے۔ میری استدعا ہے کہ اس کیس کو بھی عافیہ شہر بانوں کیس کے تناظر میں دیگر کیسز کیساتھ منسلک کیا جائے۔ اگر کونسل کی کارروائی کالعدم قرار دی جاتی ہے تو شوکت صدیقی کی حیثیت بطور ریٹائرڈ جج ہو جائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ الزامات کا کیا ہوگا؟ سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر اپیل پر جلد سماعت مکمل ہوتی تو اب تک معاملہ حل ہو چکا ہوتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی جج کو مکمل انکوائری کے بغیر نہیں ہٹانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابتک کتنی سماعتیں ہوئیں اس اپیل پر؟ حامد خان نے کہا کہ بے شمار سماعتیں ہوئیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ الزام آپ ہم پر تو نہیں دیں گے ناں؟
عدالت نے سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے رائے لی۔ انورکانسی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کونسل معاملہ بھیجنے کا اختیار حاصل ہے۔
ریٹائر جج کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کا اختیار دینے کی طرف اہم پیشرفت:
وفاق نے کارروائی کا اختیار ختم کرنے والے عافیہ شیربانو کیس میں اپیل دائر کر دی۔ اٹارنی جنرل نے شوکت صدیقی کیس کے ساتھ اپیل بھی سننے کی تجویز دے دی۔ اٹارنی جنرل نے اپیل دائر کرنے سے عدالت کو آگاہ کر دیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ توقع ہے ہماری اپیل پر آج یا کل نمبر لگ جائے گا۔ عافیہ شیربانو کیس فیصلہ کالعدم ہوجائے تو معاملہ کونسل میں جا سکتا ہے۔ شوکت صدیقی کیس میں ان کی مراعات بحال کرنے کا آرڈر بھی ہوسکتا ہے۔ وسیع تناظر میں دیکھنا ہو تو معاملہ کونسل میں جا سکتا ہے۔ جج کو انکوائری کے بغیر ہٹایا نہیں جا سکتا یہ بنیادی حق کا معاملہ ہے۔
جسٹس ر انور کاسی کے وکیل وسیم سجاد روسٹرم پر آگئے:
اپنے بیان میں انہوں ںے کہا کہ سپریم کورٹ کو کیس ریمانڈ بیک کرنے سے آئین نہیں روکتا۔ عدالت مکمل انصاف کے دائرہ اختیار میں بھی جا سکتی ہے۔
حامد خان نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس تھا جہاں جج کو انکوائری کے بغیر ہٹایا گیا۔ ایک تفصیلی فیصلہ آنا چاہئے جج کو ہٹانے سے پہلے انکوائری کیوں ضروری ہے۔ 1956 اور 1962 کے آئین میں صدارتی ریفرنس کے بغیر جج کو ہٹایا نہیں جا سکتا تھا۔ 1973 کے آئین میں بھی پہلے یہی شرط تھی۔ 2005 میں پہلی بار آئین میں صدارتی ریفرنس کے علاوہ طریقہ کار متعارف کرایاگیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل کوئی پچاس شکایات دائر کردے تو ایسے میں تو ادارہ ہی ختم ہو جائے گا۔ حامد خان نے کہا کہ سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہمارے الزامات کی تردید کو تو انھیں چھوڑ دیا گیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ بہت سنگین الزام لگا رہے ہیں۔ یہ آپ کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کوئی اور بات کریں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب ایک جج کی تقریر واضح ہے اور موجود ہے کیا پھر بھی انکوائری کی ضرورت ہے؟ شوکت عزیز صدیقی پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں۔
حامد خان نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کے کیس میں انکوائری لازم ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ شوکت صدیقی کیخلاف شکایت کس نے کی یا رجسٹرار نے خود سب کچھ کونسل کو بھیجا۔ رجسٹرار کس حیثیت میں جج کے خلاف کونسل کو نوٹ لکھ سکتا ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ شوکت صدیقی کیس میں سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا۔ کیا جب کونسل ازخود کارروائی کرے تو بھی انکوائری کرنا ہو گی؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کونسل نے خود کیسے کارروائی کا آغاز کیا ہمیں رجسٹرار آفس کا نوٹ دکھائیں؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سیکرٹری کونسل کیسے ہو سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہو سکتا ہے کونسل نے ہی سیکرٹری کونسل کو کہا ہو۔ کونسل میں کتنی مرتبہ کیس لگا؟ حامد خان نے بتایا کہ صرف ایک مرتبہ کیس لگا جس میں شوکت صدیقی کو بلایا گیا تھا۔