الیکشن کمیشن عام انتخابات میں جمہوری اقدامات کرنےمیں ناکام رہا،تفصیلی فیصلہ

01:28 PM, 23 Sep, 2024

ویب ڈیسک : الیکشن کمیشن کا یکم مارچ فیصلہ اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم! تحریک انصاف کی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں اس کا حق ہے جو اسے دیا جائے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کے کنڈکٹ پر بھی سوالات اٹھا دئیے گئے۔ تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا.
رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق مقدمے کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا یکم مارچ 2024 کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔
پیر کو جاری کیا جانے والے فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ سپریم کورٹ کے ان ججز نے اپنے اختلافی نوٹ میں جو آبزرویشنز دیں وہ سپریم کورٹ کے ججز کو زیب نہیں دیتا تھا۔

 تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، الیکشن میں بڑا اسٹیک عوام کا ہوتا ہے، انتخابی تنازع بنیادی طور پر سِول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔آئین سیاسی جماعت بنانے اور عوام کی اس میں شمولیت کا حق دیتا ہے۔

 مخصوص نسشتوں کے کیس میں 13 رکنی فل کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا ہے بطور ایک آئینی ادارہ الیکشن کمیشن 8 فروری 2024 کو صاف شفاف انتخابات کرانے میں ناکام رہا ہے۔ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے۔ الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔ جب الیکشن کمیشن اپنی زمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو پھر عدالتوں کو مداخلت کرنی پڑتی ہے اور آگے جاکر کرنی پڑی تو عدالت مُداخلت کرے گی۔

 تفصیلی فیصلے میں حکم دیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے 80میں سے 39ایم این ایز کو تحریک انصاف کا ظاہر کیا، الیکشن کمیشن کو کہا وہ باقی 41ایم این ایز کے 15روز کے اندر دستخط شدہ بیان لیں، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے۔

 تفصیلی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس امین الدین خان نے ہمارے فیصلے سے اختلاف کیا اور اس کے باوجود انہوں نے 3 اگست کو جو فیصلے کے حوالے سے نوٹس جاری کیا یہ سپریم کورٹ کے ججز کے معیار کے مطابق نہیں کیونکہ تفصیلی فیصلے میں آپ اپنی وجوہات لکھ سکتے تھے الگ سے 8 ججز پر پریشر بنانے کیلئے نوٹس جاری کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

اختلافی نوٹ میں شامل آبزرویشنز انصاف کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ اور سپریم کورٹ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔

 تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوارکیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے آزاد ارکان کو ووٹ پارٹی کی وجہ سے دیا۔

  فیصلے میں قرار دیا گیا کہ ریٹرننگ افسروں اور الیکشن کمشن کے غیرقانونی اقدامات کی وجہ سے الیکشن شفاف اور غیرجانبدار نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ایک سیاسی جماعت تحریک انصاف کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔

 سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں ‏ مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کیلئے بنائی گئی انتخابی رولز کی شق 94 بھی کالعدم قرار دے دی۔

 تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ  کسی بھی رجسٹرڈ سیاسی جماعت کوڈی لسٹ کرنے کا الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں۔آئین یا قانون سیاسی جماعتوں کو امیدوار انتخابات میں کھڑے کرنے سے نہیں روکتا۔ عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کا اہم جزو ہے۔جمہوریت کا انتخاب عوام کے پاس ہے۔ عوام کی خواہش اور جمہوریت کے لئے ووٹنگ ضروری ہے۔

 تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون کسی شہری کو انتخاب لڑنے سے نہیں روکتا، عوام کی خواہش اورجمہوریت کیلئے شفاف انتخابات ضروری ہیں، الیکشن کمیشن نے ہمارے فیصلے کو غلط استعمال کیا اور پی ٹی آئی کو نشان نہیں دیا جو کہ غیر آئینی ہے۔

 تفصیلی فیصلے میں قراردیا گیا ہے کہ ‏یہ عدالت متعدد مقدمات میں کہہ چکی مکمل انصاف کرتے ہوئے عدالت کسی تکنیکی اصول کی پابند نہیں۔

عدالتوں نے یقینی بنانا ہےعوام کے ووٹوں سےمنتخب افراد شفافیت کےتحت اپنی ذمہ داری سنبھالیں، بطور اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کرے اور  ووٹرز کے حق نمائندگی پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔

 تفصیلی فیصلے میں مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ اردو زبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ کہا گیا ہے کہ اردو ترجمہ کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ  کیا جائے۔

مزیدخبریں