اراکین کو پارٹی لائن پر عمل کرنا ہوتا ہے، فل اسٹاپ

11:20 AM, 24 Mar, 2022

احمد علی
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس اور تحریک عدم اعتماد کے دن تصادم روکنے کی بار کونسل کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ 63 اے کہتا ہے کہ بیشک آپ اپنی جماعت سے ناخوش ہوں مگر جماعت کیساتھ کھڑے ہوں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا اراکین کو پارٹی لائن پر عمل کرنا ہوتا ہے، فل اسٹاپ، دیٹس اٹ۔ پارٹی لائن تبدیل کرنے پر گڈ بوائے بیڈ بوائے نہیں کہا جاتا۔ پارٹی رائے انفرادی رائے پر ووٹ کے وقت حاوی ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ضمیر تنگ کر رہا ہے تو مستعفی ہو جائیں، سال 1992 کے بعد سے بہت کچھ ہوا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 63 اے یا آرٹیکل 95 کی بنیاد پر سارا سیاسی سسٹم کھڑا ہے، 63 اے یا آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی تو سارا سیاسی سسٹم ہل جائے گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جا سکتی ہے؟ زیادہ تر جمہوری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں۔جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ چھلانگیں لگتی رہیں تو معمول کی قانون سازی بھی نہیں ہو سکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چیئر ہی چلتی رہے گی۔ جسٹس منیب نے کہا سب نے اپنی مرضی کی تو سیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی۔ انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا آرٹیکل 63A میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے۔ اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے۔ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت پپر تک ملتوی کردی۔ یاد رہے سپریم کورٹ نے آرٹیکل63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے تھے۔
مزیدخبریں