ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کیس میں سپریم کورٹ کے اہم ریمارکس آگئے

06:01 PM, 26 Feb, 2024

ویب ڈیسک:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف سابق صدر آصف علی زرداری کے ریفرنس کی سماعت کے دوران دیے۔ آج عدالتی معاونین خالد جاوید خان اور بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل مکمل کیے، جس کے بعد عدالت نے ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔
دوران سماعت عدالتی معاون خالد جاوید خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا، سپریم کورٹ اس حد تک ضرور قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس کے میرٹس پر نہیں جاسکتی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے۔
عدالتی معاون خالد جاوید خان نے دلائل دیے کہ سیاسی مقاصد کے علاوہ دیگر معاملات پر عدالت رائے دینے کی پابند ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس میں صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔ خالد جاوید خان نے کہا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پوری ریاستی مشینری آمر ضیا الحق کے کنٹرول میں تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا فیصلہ تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 طویل صفحات پر مشتمل ہے، اگر کبھی اس سے بھی طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اتنے طویل اور تفصیلی فیصلے سے لگتا ہے کہ جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے، اس لیے اتنی تفصیل لکھی گئی۔
عدالتی معاون خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس آفتاب نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اچھے مسلمان نہیں تھے، جس پر سپریم کورٹ نے بھی کہا اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ عدالت نے یہ بھی کہا؟ کہاں لکھا ہوا ہے؟
خالد جاوید خان بولے کہ ایک ہائیکورٹ کے جج کو کسی کے اچھے مسلمان ہونے کے بارے میں بات کرنے کی کیا ضرورت تھی، اچھا مسلمان نہ ہونے کی بات بھی سپریم کورٹ کے نوٹس میں آئی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے جج کی آبزرویشن کی نفی نہیں کی اور نہ ہی اسے غلط کہا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ کے جج نے ایسی بات کی تھی، جس پر خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ موجود ہے، جس میں ہائیکورٹ کے جج کی آبزرویشن کا ذکر ہے۔

مزیدخبریں