ویب ڈیسک: طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان اور ہمسایہ ممالک کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں دہشت گردی سر فہرست ہے ۔
عالمی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق " طالبان کے اقتدار میں آتے ہی خطے میں نا صرف دہشت گردی بڑھی بلکہ علاقائی امن بھی داؤ پر لگ گیا" اس وقت افغانستان میں متعدد دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں جن کی مذموم کارروائیوں کی وجہ سے خطے کا امن خطرے میں ہے۔
حال ہی میں روسی ڈپٹی وزیر خارجہ نے افغانستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
روسی میڈیا کا کہنا ہے کہ ماسکو میں ہونے والی برکس کاؤنٹر ٹیررزم ورکنگ گروپ کی میٹنگ میں روسی ڈپٹی وزیر خارجہ سر گے ورشنین نے افغانستان میں دہشت گردی کو عالمی مسئلہ قرار دیا، روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ " افغانستان کو چاہیے کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کا سدِباب کرے" سرگے ورشنین کا کہنا تھا کہ " افغانستان مشرق وسطیٰ اور مشرقی شام میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا"
سرگے ورشنین کا کہنا تھا کہ طالبان، القائدہ اور آئی ایس آئی ایس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے باعث ان پر عالمی پابندیوں کا بھی ذکر بھی کیا۔
برکس مانیٹرنگ ٹیم نے کہا کہ عالمی دہشت گرد تنظیمیں آج بھی افغانستان کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتی ہیں، طالبان نے ہمیشہ دہشت گرد تنظیموں کی سہولت کاری کی، طالبان حکومت کی بروقت کاروائی نہ کرنے اور دہشت گردی کی پشت پناہی کی وجہ سے القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس افغانستان میں دوبارہ مضبوط ہو رہی ہیں۔
سکیورٹی کونسل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق " القاعدہ افغانستان کے پانچ صوبوں میں مستحکم ہو چکی ہے جن میں کابل اور ننگرہار بھی شامل ہیں" القاعدہ اپنی تنظیم نو، نئی بھرتیوں اور تربیتی کیمپوں کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کر رہی ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق طالبان حکومت خطے میں امن کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی۔
ان بیانات سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ " طالبان حکومت ایک دفعہ پھر خطے کو غیر یقینی صورتحال اور انتشار کی جانب دھکیل رہی ہے"۔