کوئی تو تھا جو عمران خان کو بتارہا تھا کہ یہ آپ کو قتل کروادیں گے، فواد چودھری

01:39 PM, 26 Jun, 2024

علی زیدی

ویب ڈیسک: (علی زیدی) سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ فوج سے رابطہ نہ رکھنے کی عمران خان کی بات مان کر غلطی کی۔ وہ تحریکِ انصاف میں تھے اور رہیں گے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ دورانِ حراست تشدد کی وجہ سے عمران خان نے انہیں پارٹی سے الگ ہونے کے لیے کہا۔ان کے بقول اگر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور عمران خان فوج سے رابطے رکھتے تو شاید غلط فہمیاں اتنی نہ بڑھتیں۔ان کا کہنا تھا کہ "کوئی تو تھا ناں جو عمران خان کو بتا رہا تھا کہ یہ آپ کو قتل کروا دیں گے اور ادھر فوجی قیادت کو کہہ رہا تھا کہ عمران خان آپ کو نہیں چھوڑے گا۔"

فواد چوہدری نے وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوج سے رابطہ نہ رکھنے کی عمران خان کی بات مان کر غلطی کی۔

پی ٹی آئی کی موجودہ لیڈرشپ کے قد اتنے چھوٹے ہیں کہ وہ بڑے سیاسی رہنماؤں کے سامنے بالکل ہی چوہے بن جائیں گے اس ڈر سے وہ کسی کو آگے نہیں آنے دیتے۔ لوگوں کو تو ان کا نام ہی نہیں پتہ۔

انہوں نے کہا کہ  مجھے گرفتار کرکے جیل میں نہیں ٹارچر سیلز میں رکھا گیا جہاں وفاقی وزیر ہونے کے باوجود دن رات تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ، کرنٹ لگایا جاتا تھا اور ویڈیو بنا کر اعلی قیادت کو بھیجی جاتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے خود فون کرکے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم پر تشدد کیا جارہا ہے اثبات میں جواب دینے پرانہوں نے کہا اتنا تشدد کون برداشت کرسکتا ہے تم مجھے چھوڑ دو۔

تشدد سے جب حالت خراب ہوگئی تو ایک جاننے والے نے مداخلت کی اور عمران خان کی مذمت کرنے پر ریلیف ملا، وہ ٹویٹ بھی ایک حاضر سروس نے کیا میں نے نہیں کیا تھا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ استحکام پاکستان پارٹی میں مجھ سمیت علی زیدی، عمران اسماعیل کو زبردستی شامل کیا گیا، میں نے جہانگیر ترین اور عبدالعلیم کو بتادیا تھا کہ پنجاب کی پولیٹیکل کلاس آپ کے خلاف ہوجائے گی، ایسا نہ کریں۔

وائس آف امریکا کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان نے کہا کہ اول تو الیکشن ہونے نہیں اور اگر ہوئے تو انہیں 40 قومی اسمبلی کی نشستوں کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ پالیسی وقت کے ساتھ بدلتی ہے۔

سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی موجودہ قیادت نہیں چاہتی کہ عمران خان جیل سے باہر آئیں کیوں کہ جس دن بانی پی ٹی آئی باہر آئیں گے پارٹی میں ان کا عمل دخل ختم ہو جائے گا۔

ان کے بقول پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کو خوف ہے کہ کہیں اسد عمر، فواد چوہدری، علی زیدی اور عمران اسماعیل واپس نہ آ جائیں۔

انہوں نے کہا کہ شیریں مزاری، مسرت جمشید چیمہ، عثمان ڈار، ملیکہ بخاری پر کیا بیتی، موجودہ قیادت نے کبھی پوچھنا گوارا نہیں کیا۔

فواد چوہدری کہتے ہیں کہ عمران خان اور فوج کے درمیان لڑائی نہیں ہے البتہ تلخیاں پائی جاتی ہیں جنہیں دونوں جانب سے ایک ایک قدم پیچھے ہٹ کر بات چیت سے دور کیا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس ضمن میں پہلا قدم فوج کو لینا ہوگا اور وہ قدم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف عدت کا مقدمہ واپس لے کر لیا جا سکتا ہے۔

ان کے بقول "سب سے پہلے کل ہی عدت کا مقدمہ واپس لیں اور اس پر عمران خان اور بشریٰ بی بی سے معذرت ہونی چاہیے۔"

انہوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف کو چاہیے کہ وہ سب سے بات کرے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جماعت کی موجودہ قیادت سیاسی وزن اور حیثیت نہیں رکھتی کہ وہ سیاسی قائدین اور اداروں کے سربراہوں سے بات کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا سب کا فوج سے کون سا ذاتی جھگڑا تھا ہمارے تو اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات تھے لیکن اس کے باوجود تشدد کا سامنا کیا۔

فواد چوہدری  کا کہنا تھا کہ  اُنہیں شیخ رشید کا فون آیا جنہوں نے کہا کہ "اگر میں اور تم بھی فوج کے خلاف ہیں تو پھر اس ملک میں فوج کا حامی کون ہے۔"

فواد چوہدری کے بقول پیر پگاڑا، شیخ رشید، مولانا فضل الرحمٰن، پرویز الہی سب ہی اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ پالیسی کے ساتھ نہیں ہیں۔

فوج سے رابطے کے سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ " فوج سے اب کیا رابطہ ہونا۔ انہوں نے مار مار کر حشر کردیا یے اب کیا رابطہ۔"

مزیدخبریں