ویب ڈیسک :امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابینہ کے پہلے اجلاس سے چند گھنٹے قبل اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اعلان کیا کہ گروپ ’ ایلون مسک سے بہت خوش ہے۔‘
نیویارک ٹائمز کے مطابق جب ٹرمپ کابینہ کا پہلا اجلاس شروع ہوا، تو ایسا لگ رہا تھا کہ کابینہ کے ارکان کا کام یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ واقعی ایلون سے خوش ہیں۔
اپنے نام کے کارڈ کے ساتھ وزرا خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے، وہ خاموشی سے سنتے رہے جب دنیا کے امیر ترین شخص نے ان پر تنقید کی اور خسارے کے حجم پر سرزنش کی، ایبولا کی روک تھام کی کوشش کو عارضی طور پر منسوخ کرنے کا اعتراف کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ سب ان کے مشن کے لیے اہم ہیں۔
ایلون مسک نے کہا کہ ’میں آپ سب کی حمایت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘
حقیقت میں مسک کو کابینہ کے ہر وزیر کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ وہ اس لیے کہ جب انہوں نے ان کے ملازمین کو ای میل کے ذریعے مستفی ہونے کا کہا تھا۔
جب ایک رپورٹر نے اس معاملے کے بارے میں سوال کیا تو ٹرمپ یہ نے سوال اپنے وزرا سے کیا۔
ٹرمپ نے سوال کیا کہ ’کوئی ایلون سے ناخوش ہے؟ اگر آپ ناخوش ہیں، تو ہم اسے یہاں سے نکال دیں گے۔ کیا کوئی ناخوش ہے؟‘
کوئی بھی ناخوش نہیں تھا۔ میز کے چاروں طرف لوگوں کا قہقہہ گونج اٹھا۔ سیکریٹری آف کامرس ہاروڈ لوتنک مسکرائے اور آہستہ تالیاں بجائیں۔ سمال بزنس ایڈمنسٹریٹر کیلی لوفلر نے بھی تالیاں بجائیں جبکہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک مرتبہ تالی بجائی اور مسک کی طرف مسکرا کر دیکھا۔
آج کا اجلاس شاید ایسا پہلا اجلاس تھا جس میں احترام کا مظاہرہ صدر کے لیے نہیں، بلکہ ایک ٹیکنالوجی کمپنی کے ایک ایگزیکٹیو کے لیے کیا گیا تھا۔
ایلون مسک کابینہ کے وزیر نہیں ہیں، وہ حتیٰ کہ ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (ٍؑDOGE) کے رسمی سربراہ بھی نہیں ہیں، لیکن وہ اس اجلاس میں سب سے نمایاں شخصیت تھے اور آج یہ واضح ہو گیا کہ ٹرمپ اپنی کابینہ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ مسک کی پیروی کریں۔
ایلون مسک کا حکم ٹرمپ کا حکم سمجھا جائے
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’وہ احکامات پر عمل کریں گے۔‘
اس موقعے پر مسک نے اعلان کیا یہ گروپ اب تک ’بہترین کابینہ‘ ہے۔ اور پھر وفاقی ملازمین کے لیے اپنی ہدایت کے بارے میں وضاحت دینے لگے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے انہیں مزید ’جارحانہ‘ ہونے کی ترغیب دی۔
بحث کے آخر میں کابینہ کے وزیروں کے لیے پیغام واضح تھا کہ مسک کے حکم کو صدر کا حکم سمجھنا چاہیے اور سب کو اس پر خوش ہونا چاہیے۔
ایلون مسک اور ڈوج پر تقریباً 15 منٹ تک توجہ مرکوز کرنے کے بعد، ٹرمپ نے کابینہ کی توجہ اپنی کامیابیوں پر دلائی جو انہوں نے گزشتہ چند ہفتوں میں حاصل کیں۔
کابینہ تقریباً ایک گھنٹے سے زیادہ تک خاموشی سے بیٹھی رہی، جبکہ ٹرمپ نے صحافیوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔
پہلے کابینہ اجلاس میں صدر ٹرمپ نے کیا کہا ؟
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کابینہ کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنی حکومت کے ترجیحات پر بات کی اورانہوں نےمحصولات کے معاملے، یوکرین امن معاہدے ، غزہ جنگ بندی اور گولڈ کارڈ کے اجرا سمیت متعدد اہم امور پر بات کی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو واشنگٹن میں اپنی پہلی کیبنٹ مٹینگ میں کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی کو آگے بڑھانے کے بارے میں فیصلہ اسرائیل کو کرنا ہے۔ غیر ملکی مصنوعات پر ٹیرف لگانے سے متعلق ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ بہت جلد یورپی یونین پر ٹیرفس کا اعلان کرے گا۔
یوکرین کے ساتھ معدنیات کے معاہدے اور دیگر ایشوز پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کابینہ کو بتایا کہ صدر زیلنسکی جمعے کو اسی سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے واشنگٹن کا دورہ کر رہے ہیں۔
اور صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطی میں غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام کے بعد اب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آگے کیا کرتے ہیں۔
رمپ نے کہا کہ انہیں حماس عسکریت پسند گروپ کی اسیری میں فوت ہونے والے اسرائیلی یرغمالوں کی لاشوں کو دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ غیر ملکی مصنوعات پر ٹیرف لگانے سے متعلق ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ بہت جلد یورپی یونین پر ٹیرفس کا اعلان کرے گا۔ جب ان سے کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدی اشیا پر 30 دن کے تعطل کے خاتمے پر ٹیرف کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کا نفاذ ہوگا۔