مانسہرہ میں خاتون سےپولیس اہلکارکوتھپڑ پڑنےکی ویڈیو وائرل،آخر معاملہ ہےکیا؟

12:35 PM, 27 Jan, 2025

ویب ڈیسک: صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے علاقے گڑھی حبیب اللہ کی بعض ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹریفک پولیس کے ایک اہلکار کو ایک کمرے میں لایا جاتا ہے اور پھر انھیں ایک پردہ پوش خاتون تھپڑ مارتی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مانسہرہ میں واقع برار کوٹ چوکی کے پاس پولیس اہلکار نے کسی جھگڑے کے دوران اسی خاتون کو تھپڑ مارا تھا۔

علاقے کے سیاسی و سماجی رہنما محمد صالح نے تھانہ گڑھی حبیب اللہ میں درخواست دائر کی ہے جس میں دعویٰ کیا کہ یہ سب بالاکوٹ پولیس کے اعلیٰ افسران کی ایما پر ہوا جنھیں ’عوامی دباؤ‘ کا سامنا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار کو سب کے سامنے تھپڑ مارنے اور معافی منگوانی سے خیبر پختونخوا پولیس اور عوام کی توہین ہوئی ہے لہذا اس پر کارروائی کی جائے۔

ضلع مانسہرہ پولیس کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ڈی آئی جی ہزارہ نے ان واقعات کی انکوائری کا حکم دے رکھا ہے۔

مظاہرین نے کئی گھنٹوں تک سڑک بلاک کی تھی۔اس حوالے سے یہ ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں پولیس اہلکار ایک خاتون کو تھپڑ مارتا ہے۔ خاتون کے ہمراہ سفر کرنے والے ان کے بھائی محمد خورشید کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگ مظفر آباد سے گڑھی حبیب اللہ تعزیت کے لیے جا رہے تھے۔ خیبر پختونخوا کی حدود میں داخل ہوئے تو ٹریفک پولیس اہلکار نے روکا اور کاغذات مانگے جو دے دیے تھے جبکہ میرے پاس لائسنس کی کاپی تھی، لائسنس نہیں تھا۔‘
محمد خورشید کا کہنا تھا کہ 'میں نے پولیس اہلکار کو کہا کہ لائسنس تیاری کے مراحل میں ہے، کشمیر میں (عموماً) لائسنس ملنے میں تاخیر ہوتی ہے۔۔۔ مگر اس کے باوجود اہلکار نے کہا کہ پانچ ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔'
کچھ بحث کرنے پر ان کے بقول پولیس اہلکار نے ایک ہزار روپے جرمانے کا مطالبہ کیا تھا۔
محمد خورشید نے الزام عائد کیا کہ ’میں ابھی وہاں پر موجود انچارج سے بات ہی کر رہا تھا کہ وہی پولیس اہلکار آیا اور کہا کہ 'یہ بہت باتیں کرتا ہے، اس کو اٹھا کر (پولیس) موبائل میں ڈالیں اور اس کو چوکی لے جاتے تھے۔‘
’جب اس نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو گاڑی میں میری بہن باہر نکل آئی اور اس نے کہا کہ ’ایسا مت کرو تم کسی کو ہاتھ نہیں لگا سکتے‘۔ تو اس اہلکار نے میری بہن کو تھپڑ مار دیا جس کے بعد لوگ مشتعل ہوئے اور روڈ بلاک ہوگیا۔‘
خاتون کے بھائی محمد خورشید کہتے ہیں کہ انھوں نے جرگے کے دوران شرط رکھی تھی کہ 'پولیس اہلکار نے پاکستان کی ایک بیٹی کو تھپڑ مارا جس پر میری بہن بھی اس کو تھپڑ مارے گی۔'
محمد خورشید نے بتایا کہ اسی فیصلے کی روشنی میں ان کی بہن نے پولیس اہلکار کو تھپڑ مارا۔
ڈی پی او مانسہرہ شفیع اللہ گنڈاپور نے بتایا کہ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے سینیئر افسران کو ٹاسک سونپا گیا تھا کہ وہ معاملے کو حل کرائیں کیونکہ روڈ بلاک ہوچکا تھا۔ ’ خاتون کے ساتھ بدتمیزی ناقابل برداشت تھی۔۔۔ جس پر کہا گیا کہ ایک بیٹی کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر وہ معذرت کرے گا اور قانونی کاروائی ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ٹریفک پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو بھی سامنے آچکی ہے۔ ’یہ صورتحال ناقابل برداشت ہے، پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا اور کیسے پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی۔‘
سیاسی و سماجی رہنما محمد صالح کا دعویٰ ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکار نے ' خاتون کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کی' بلکہ بالاکوٹ پولیس کے افسران نے اپنے اہلکار کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ 'پہلے اس کو تھپڑ مروایا اور پھر اس کی ویڈیو کو وائرل کر دیا۔ معاشرے میں اس کا بھی مقام ہے اور میرا مطالبہ ہے کہ ان افسران کے خلاف کارروائی کی جائے۔'
ممتاز قانون دان ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ سارا واقعہ تو یہ منظر نامہ پیش کر رہا ہے کہ قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ 'سزا دینے کا اختیار صرف عدالتوں کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس نہیں۔ پولیس والے ہوں یا عوام، وہ خود فیصلے نہیں کرسکتے ہیں۔

مزیدخبریں