وفاقی شرعی عدالت کا سودی نظام کو ختم کرنے کا حکم
06:39 AM, 28 Apr, 2022
اسلام آباد: ( پبلک نیوز) وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027ء تک پاکستان کے معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کیلئے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ سمجھتے ہیں کہ معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے میں وقت لگے گا۔ تاہم ڈیپازٹ کو فوری طور پر ربا سے پاک کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے کہا کہ دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کیلئے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ سٹریٹ بینک کے سٹریٹجک پلان کے مطابق 30 فیصد فیصد بینکنگ اسلامی نظام پر منتقل ہو چکی ہے۔ اسلامی اور سود سے پاک بنکاری نظام کیلئے پانچ سال کا وقت کافی ہے۔ توقع ہے حکومت سود کے خاتمے کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔ وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام کیخلاف کیس کئی دہائیوں سے زیر سماعت تھا۔ چیف جسٹس نور محمد مسکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ چیف جسٹس کے ساتھ جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین اس بنچ میں شامل تھے۔ اس کیس میں جماعت اسلامی سمیت 71 درخواست گزاران ہیں۔ سودی نظام کے خاتمے کیلئے شرعی عدالت میں پہلی درخواست 30 جون 1990ء میں دائر کی گئی تھی۔ سابق چیف جسٹس شرعی عدالت نے ڈاکٹر تنزیل الرحمن کی سربراہی میں تین رکنی بنچ تشکیل دیا جس نے 14 نومبر 1991ء میں فیصلہ سنایا۔ فیصلے میں 30 اپریل 1992ء تک عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اُس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 23 دسمبر 1999ء میں سپریم کورٹ نے شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ سپریم کورٹ نے 30 جون 2000ء تک فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ہدایت جاری کی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں 2002ء میں نظر ثانی اپیل دائر کردی گئی۔ 24 جون 2002ء میں شرعی عدالت کا فیصلہ معطل کر دیا گیا اور ربا کی تشریح کیلئے مقدمہ واپس شرعی عدالت بجھوا دیا گیا۔ گذشتہ 20 سال سے شریعت کورٹ میں سودی نظام کیخلاف کیس زیر التوا تھا۔ کئی سماعتیں ہوچکی ہیں،اس عرصے میں کئی درخواست گزاران اور عدالتی معاونین ابدی نیند سو گئے۔ فیصلہ آنے تک فیڈرل شریعت کورٹ کے 9 چیف جسٹس صاحبان مدت پوری کرکے گھر چلے گئے۔