سپریم کورٹ کاپنجاب اورخیبرپختونخوامیں انتخابات90دنوں میں کرانےکاحکم

01:22 PM, 28 Feb, 2023

احمد علی
اسلام آباد: پنجاب، خیبرپختونخوا (کے پی) الیکشن ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے کا حکم دے دیا ہے ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نےگذشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پنجاب اور کے پی میں انتخابات 90 دنوں میں کرانےکا حکم دیا ہے ، سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے دیا گیا ہے، بینچ کی اکثریت نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا ہے ۔فیصلے میں5 رکنی بینچ کے 2ممبران نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا ہے ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ جنرل اتنخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے، آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے ، اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات ہونا لازم ہیں ، پنجاب اسمبلی گورنرکے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی جبکہ کے پی اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی ہے ۔ فیصلے کے مطابق گورنرکو آئین کے تحت3 صورتوں میں اختیارات دیےگئے ہیں ، گورنر آرٹیکل 112 کے تحت، دوسرا وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 222 یہ کہتا ہےکہ انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے، الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کی اعلان کا اختیار دیتا ہے ، اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل کی تو تاریخ کا اعلان بھی گورنر ہی کرےگا، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو صدر مملکت سیکشن 57 کے تحت اسمبلی تحلیل کریں گے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حاصل ہے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی ہے،گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا ہے ، الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے ، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، گورنر کے پی صوبائی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، ہر صوبے میں انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے چاہئیں۔ سپریم کورٹ نےیہ حکم دیا ہےکہ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کیلئے تمام سہولیات فراہم کرے، عدالت انتخابات سے متعلق یہ درخواستیں قابل سماعت قرار دے کر نمٹاتی ہے۔چیف جسٹس نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ بھی پڑھ کر سنائے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگرکیس میں 16فروری کو ازخودنوٹس کیلئے معاملہ چیف جسٹس کوبھیجا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ حکمران اتحاد نے 9 رکنی لارجر بینچ میں شامل 2 ججز پر اعتراض اٹھایا جس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے خودکو بینچ سے الگ کرلیا تھا اور جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ بھی9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ 9 رکنی بینچ ٹوٹنےکے بعد چیف جسٹس پاکستان نے بینچ کی ازسر نو تشکیل کرکے اسے 5 رکنی کردیا۔ گذشتہ روز پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، پانچ رکنی بینچ نے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی تھی ۔پنجاب،کے پی الیکشن ازخود نوٹس کیس کی سماعت مکمل ہوگئی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نےکہا کہ فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا، ہم تمام وکلا کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے عدالت کی معاونت کی۔ کتنی دیر میں ہم واپس آتے ہیں کچھ کہہ نہیں سکتا۔دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیاسی قائدین سے مشورہ کرکے الیکشن کی متوقع تاریخ سے آگاہ کریں ، جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ مل بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ طے کرے ۔انہوں نے کہاتھا کہ میرے پنچایتی دماغ میں یہ خیال آیا ہے ، جمہوریت کی یہی منشا ہے کہ ایک فریقین لچک دکھائے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اصل طریقہ یہی ہے کہ ملکر فیصلہ کیا جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ قانونی باتوں کو ایک طرف رکھ کر ملک کا سوچیں ، ملک کو آگے رکھ کر سوچیں گے تو حل نکل ہی آےگا ۔ فاروق نائیک نے کل تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ،آصف زرداری اور مولانا سے مشاورت کرنی ہے، جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آج مقدمہ نمٹانا چاہتے ہیں ، عدالت کا سارا کام اس مقدمہ کی وجہ سے رکا ہوا ہے ۔جس کے بعد عدالت نے سیاسی جماعتوں کے وکلا سے آج چار بجے تک راے مانگ لی اور سماعت میں چار بجے تک وقفہ کر دیا تھا۔ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو پاکستان پیلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل شروع کیے.

پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کے دلائل :‌

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے بغیر دی، بغیر ایڈوائس الیکشن کی تاریخ دینا خلاف آئین ہے، صدر نے الیکشن کمیشن سے بھی مشاورت نہیں کی. جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ اسمبلی مدت پوری کرے تو صدر کو ایڈوائس کون کریگا، اسمبلی مدت پوری کرے تو 2 ماہ میں الیکشن لازمی ہیں، ایڈوائس تو صدر 14 دن بعد واپس بھی بھجوا سکتا ہے، سمری واپس بھجوانے کی صورت میں 25 دن تو ضائع ہوگئے، وزیر اعظم کو اعتماد کے ووٹ کا کہنا صدر کی صوابدید ہے، صدر کو اعتماد کے ووٹ کا کہنے کےلیے سمری کی ضرورت نہیں. جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اصل سوال الیکشن کی تاریخ دینے کا ہے کہ کون دیگا، 14 جنوری سے کسی کو فکر نہیں کہ تاریخ کون دےگا، پارلیمنٹ چاہتی تو کچھ کرسکتی تھی.چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ حالات میں 90 روز میں الیکشن ضروری ہیں، پشاور ہائی کورٹ نے 2 ہفتے نوٹس دینے میں لگائے، لاہور ہائی کورٹ میں بھی معاملہ التواء میں ہے، سپریم کورٹ میں آج مسلسل دوسرا دن ہے اور کیس تقریباً مکمل ہو چکا ہے، عدالت کسی فریق کی نہیں بلکہ آئین کی حمایت کر رہی ہے.وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت ہائی کورٹس کو جلدی فیصلے کرنے کا حکم دے سکتی ہے. چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ عدالت معاملہ آگے بڑھانے کیلئے محنت کر رہی ہے، ججز کی تعداد کم ہے پھر بھی عدالت نے ایک سال میں 24 بڑے کیسزز نمٹائے.جسٹس منیب اختر بولے کہ الیکشن کی تاریخ دیناصدر کی صوابدید ہے، اسمبلی مدت پوری ہو تو صدر کو فوری متحرک ہونا ہوتا ہے. چیف جسٹس نے کہا کہ 3 ہفتے سے ہائیکورٹ میں صرف نوٹس ہی چل رہے ہیں، اعلی عدلیہ کو سیاسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہیے، صرف مخصوص حالات میں عدالت ازخودنوٹس لیتی ہے، گذشتہ سال 2 اس سال صرف ایک ازخود نوٹس لیا، سب متفق ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت 90 روز میں الیکشن لازم ہیں، عدالت تلاش میں ہے کہ الیکشن کی تاریخ کہاں سے آنی ہے، مستقبل میں الیکشن کی تاریخ کون دےگا اس کا تعین کرنا ہے، صرف قانون کی وضاحت کرناچاہتے ہیں، عدالت کسی سے کچھ لے رہی ہے نا دے رہی ہے. جس پر فاروق ایچ نائیک بولے کہ جوڈیشل ایکٹوازم میں تحمل پر عدالت کا مشکور ہوں.

مسلم لیگ ن کے وکیل منصور اعوان کے دلائل:‌

مسلم لیگ ن کے وکیل منصور اعوان نے دلائل کا آغاز کیا، انہوں‌نے کہا کہ بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ ن نہیں چاہتی آئین کی خلاف ورزی ہو۔ قومی اسمبلی کا الیکشن ہو گا تو پنجاب اور کے پی کے میں منتحب حکومتیں ہوں گی۔ منتحب حکومتوں کے ہوتے ہوئے یکساں میدان ملنا مشکل ہے، قومی اسمبلی کے انتحابات پر سوالیہ نشان اٹھے گا۔جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ ایشو اس وقت عدالت کے سامنے نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کی وکیل نے کہا کہ عدالت مردم شماری کو بھی مدنظر رکھے۔30 اپریل تک مردم شماری مکمل ہو جائے گی۔جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر مردم شماری انتحابات سے ایک ہفتہ پہلے ہوں تو کیا الیکشن ملتوی ہو جائیں گیے۔، وکیل نے کہا کہ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوتی ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ موجود کیس میں دو اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں۔ وفاق میں سیاسی حکومت ہے وہ کیسے صوبائی میں اثر انداز نہیں ہو گی،جس پر منصور اعوان نے کہا کہ وفاق کے پاس پاور سیکٹر علاوہ کچھ نہیں بچا۔جسٹس منیب اختر بولے مردم شماری بھی وفاق کے ہی زیر اہتمام ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا گارنٹی ہے مردم شماری 30 اپریل کو شائع ہو جائے گی۔ دوہزار سولہ کی مردم شماری بھی دوہزار بائیس میں شائع ہوئی۔ آئین واضح ہے انتحاب نوے دن میں ہوں گے۔جس پر مسلم لیگ ن کی وکیل نے کہا کہ 1975 میں آرٹیکل 184/3 کی پہلی درخواست آئی تھی، عدالت نے تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے مقدمہ سنا تھا، ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا جو سپریم کورٹ میں چینلج نہیں ہے، اگر عدالت کہتی ہے کہ گورنر تاریخ دیگا تو کوئی مسئلہ نہیں ، عدالت کسی اور نتیجے پر گئی تو ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم ہو جائیگا. جسٹس منیب اختر نے کہا کہ موجودہ حالات میں مقدمات دو مختلف ہائی کورٹس میں ہیں ، ایسا بھی ممکن ہے دونوں عدالتیں متضاد فیصلے دیں، وقت کی کمی کے باعث معاملہ اٹک سکتا ہے. جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے ہائی کورٹس کا فیصلہ ایک جیسا ہو اور کوئی چیلنج نہ کرے، وکیل ن لیگ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے دو آئینی اداروں کو مشاورت کا کہا. جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ اصل معاملہ وقت کا ہے جو کاقی ضائع ہو چکا ، 90 دن کا وقت گزر گیا تو زمہ دار کون ہوگا. جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس زیادہ تاخیر کا شکار نہیں ہورہا.مسلم لیگ ن کے وکیل منصور اعوان کے دلائل مکمل ہوگئے.

جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی کے دلائل:‌

جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے دلائل کا آغاز کیا،کامران مرتضی نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کا اختیار ہے۔ گورنر کے علاوہ کسی کو تاریخ دینے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔مردم شماری ہو چکی ہے، ایسا ممکن نہیں دو صوبوں میں سابقہ مردم شماری پر الیکشن ہو ۔ کامران مرتضی نے فاروق ایچ نائیک کے موقف سے اختلاف کیا اور کہا کہ ایسانہیں ہوسکتا ایک صوبے میں گورنر تاریخ دے اور دوسری میں نہ دے ۔ ارٹیکل 105-3 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا، الیکشن ایکٹ میں صدر کا اختیار آئین کے مطابق نہیں ہے۔ الیکشن ایکٹ بناتے ہوئے شاید غلطی ہوئی ہو۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل استفسار کیا کہ غلطی کو درست اپ نے کرنا ہے یا عدالت نے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پارلیمان نے جو قانون بنایا ہے اسکا کوئی مقصد ہو گا۔ جسٹس جمال خان بولے کہ اسمبلی کو قانون سازی کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا۔جس پر وکیل نے کہا کہ وفاق میں تو تیز رفتاری سے قانون سازی ہوتی ہے۔جسٹس جمال خان نے کہا کہ گورنر آپکی پارٹی کے ہیں، انہیں کہیں تاریخ کا اعلان کردیں۔جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی کے دلائل مکمل ہوگئے.

صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرام راجہ کے دلائل:‌ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا وزیراعظم، وزیراعلیٰ کے مشورے سے مشروط نہیں بلکہ وقت کی قید سے مشروط ہے، 9 اپریل تاریخ مقرر کرنے کا مقصد آئینی مدت میں انتخابات کروانا تھا۔انہوں نے کہا کہ صدر ناصرف قومی بلکہ صوبائی اسمبلی کے لیے بھی تاریخ دے سکتا ہے جبکہ آرٹیکل 105 تھری میں باقاعدہ اس میں استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ صدر کو بغیر ایڈوائس انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار آئین نے دیا ہے، آرٹیکل 57 سیکشن ون کے تحت صدر تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے۔
مزیدخبریں