زلمے خلیل زاد امریکی خارجہ پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے، امریکا
12:38 PM, 28 Mar, 2023
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے یہ واضح کیا ہے کہ افغانستان کیلئے سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد ملک کی خارجہ پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے تھے اور صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے بیان نہیں دیتے ۔ ترجمان امریکی وزارت خارجہ کا بیان پیر (27 مارچ) کو ایک پریس بریفنگ کے دوران پاکستان کی سیاسی صورتحال سے متعلق زلمے خلیل زاد کے حالیہ بیان کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں آیا ہے ۔ واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں امریکی صدور کے تحت افغان مفاہمت کیلئے خصوصی سفیر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں ۔ رواں ماہ کے اوائل میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ پاکستان ’کم کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور بھارت سے بہت پیچھے جا رہا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو تہرے بحران کا سامنا ہے ’سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی‘ اور بہترین صلاحیت کے باوجود یہ کم کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اپنے حریف بھارت سے بہت ہی پیچھے ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ سنجیدہ روح کی تلاش، جرات مندانہ سوچ، اور حکمت عملی کا وقت ہے‘۔ سابق امریکی سفیر کی جانب سے پاکستان کو اس کے سیاسی رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان کو گرفتار کرنے کی پولیس کی حالیہ کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ملک کے مشکلات سے نمٹنے کیلئے ’دو اقدامات‘ کی تجویز پیش کی گئی تھی جس میں مزید بحران کو روکنے کے لیے انتخاب جون کے اوائل کی تاریخ مقرر کرنا شامل ہے ۔ پریس بریفنگ میں اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ویدانت پٹیل کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد ایک پرائیویٹ شہری ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ’کوئی بھی سوشل میڈیا سرگرمی یا تبصرے یا ٹوئٹس جن کا شاید آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ ذاتی حیثیت میں کیے گئے ہیں اور امریکی خارجہ پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں اور وہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے بھی بات نہیں کرتے ۔ پاکستان میں سیاسی ’افراتفری‘ کے حوالے سے ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ تشدد، ہراساں کرنے یا دھمکی دینے کی سیاست میں کوئی بھی جگہ نہیں ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’جیسا کہ ہم دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ کرتے ہیں ، ہم پاکستان میں تمام فریقین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ قانون کی حکمرانی کا احترام کریں اور پاکستانی عوام کو اپنے آئین اور قوانین کے مطابق جمہوری طریقے سے اپنے ملک کی قیادت کا تعین کرنے کی اجازت دیں۔‘