(ویب ڈیسک ) وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کا براہ راست تعلق معاشی سلامتی سے ہے، اپنی تمام توانائیاں اور وسائل ملکی معیشت کے استحکام کیلئے بروئے کار لا رہے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کا نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں 26ویں سکیورٹی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کا براہ راست تعلق معاشی سلامتی سے ہے، دونوں ساتھ ساتھ ہیں، سٹاک ایکسچینج آج ایک لاکھ پوائنٹس کی حد عبور کر گیا، وفاقی حکومت اور تمام فریقوں کے درمیان مربوط روابط اور ٹیم کی انتھک کوششوں کے باعث یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے، یہ کاروباری رجحان ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک درست سمت میں گامزن ہے، گذشتہ سے پیوستہ روز جو کچھ اسلام آباد میں ہوا اس سے سٹاک ایکسچینج 4 ہزار پوائنٹس گر گئی، احتجاج ختم ہونے کے بعد گذشتہ روز اس میں 3 ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے اور آج ایک لاکھ پوائنٹس کی حد عبور کرنا تاریخی ریکارڈ ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ برآمدات اور صنعتوں میں اضافہ ہو رہا ہو، پیداواری ملازمتوں کے مواقع مل رہے ہوں، بیورو کریسی فعال کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہو تو معاشی سلامتی خود بخود مضبوط ہوتی ہے، بدقسمتی سے ماضی میں معاشی ترقی سست رہی، اس کی مختلف وجوہات ہیں، اس میں سے خلوص سے پالیسیوں پر عملدرآمد نہ کرنا، محنت اور انتھک کوششوں کی کمی شامل ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ذہین پیشہ وارانہ کاروباری افراد، اساتذہ اور ماہرین کے ہونے کے باوجود معیشت گرتی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اب بھی کئی چیلنجوں کا سامنا ہے، جون 2023ء میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ تھا، اس پر ہم نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کی اور آئی ایم ایف کے ساتھ جامع مذاکرات کرکے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا، آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کئے گئے۔
شہباز شریف نے خطاب میں کہا کہ ماضی میں منصوبے بنا کر نظر انداز کئے گئے، ہم اپنے منصوبوں پر من و عن عملدرآمد کریں گے، ہوم گراؤنڈ پلان بنایا گیا ہے، پوری پاکستانی قوم سے مل کر اس منصوبے پر عمل کریں گے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ملک کا معاشی منظرنامہ انتھک محنت اور کوششوں سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، معاشی چیلنجز کے ساتھ ساتھ سکیورٹی چیلنجز کا بھی سامنا ہے، پاک فوج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پوری قوم نے دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے قربانیاں دیں، سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے دور میں ملک کی بہادر افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام نے دہشت گردی کو شکست دی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار افراد شہید ہوئے اور 130 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، ہمیں ان نقصانات کے اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں، پاکستان دشمن عناصر پاکستان کے دشمنوں سے مل کر اپنے مذموم ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، پارا چنار میں بے گناہ پاکستانیوں کو قتل کیا گیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ اسلام آباد میں لشکر کشی کی گئی، احتجاج کی آڑ میں ہزاروں لوگوں نے ہتھیاروں اور اسلحہ کے ساتھ دھاوا بوالا جس سے غیر یقینی اور افراتفری پیدا ہوئی، وہ معاشی استحکام کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ مہنگائی کی شرح 32 فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد پر آ گئی ہے، برآمدات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، ترسیلات زر، آئی ٹی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، یہ پاکستانی عوام کا خواب تھا، پاکستان کے دشمن سب کچھ تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس محدود آپشن ہیں، ہم اپنی تمام توانائیاں اور وسائل ملکی معیشت کے استحکام کیلئے بروئے کار لا رہے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم متحد ہو کر ملک کا مستقبل خوشحال بنا سکتے ہیں۔
بعد میں شرکاء کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بیرونی خسارہ میں فرق کو کم کرنے کیلئے برآمدات کو بڑھانا ناگزیر ہے، اس وقت ترسیلات زر 30 ارب ڈالر ہیں اور اس کے برابر برآمدات ہیں، برآمدات پر مبنی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، جب تک اپنے وسائل نہیں بڑھائیں گے تو اس وقت تک اپنی آنے والی نسلوں پر قرضوں کا بوجھ چڑھائیں گے، ایسا ہم نہیں کر سکتے، گیس اور پاور کے شعبوں میں گردشی قرضہ سمیت متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، اس میں بجلی چوری سمیت متعدد عوامل شامل ہیں، ہم متحد ہو کر ان مسائل سے نمٹنے کیلئے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں، بجلی چوری اور ادارہ جاتی خامیوں کے خاتمہ کیلئے متعلقہ وزارت کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹیکس نیٹ کو توسیع دینا ہے، ٹیکسوں میں تو اربوں روپے کی چوری ہو رہی ہے، ٹیکس ادا کرنے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں، ان کی حوصلہ افزائی کیلئے اقدامات کئے، ہم نے عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہیں، زراعت، صنعت، برآمد کنندگان اور حکومت کو ملکی ترقی کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ایپکس کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان میں غیر ملکی حمایت سے جو سازش ہو رہی ہے ان کا خاتمہ ازحد ضروری ہے، بلوچستان میں آپریشن شروع ہو چکا ہے، یہ عزم استحکام کے تحت بلوچستان اور عوام کی ترقی و خوشحالی سے جڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018ء کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں میثاق معیشت کی تجویز دی تھی، آج پھر میثاق معیشت کی تجویز کا اعادہ کرتا ہوں، حکومت کاروبار نہیں کرتی بلکہ کاروبار کے فروغ کیلئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے، مختلف اداروں میں رائٹ سائزنگ اور ڈاؤن سائزنگ کر رہے ہیں، خسارے کا شکار سرکاری ملکیتی اداروں میں اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، ان اربوں روپے کا نقصان بچائیں گے، حکومت، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سمیت تمام اداروں کا اس بارے میں یکساں مؤقف ہے، وزیر اطلاعات کو اس معاملہ پر قوم کو آگاہ کرنے کیلئے جاندار بیانیہ وضع کرنے کا کہا ہے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ 2010ء کے این ایف سی ایوارڈ کے تحت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبرپختونخوا کو تمام صوبے ایک فیصد حصہ دیتے ہیں، اب تک ان کو 600 ارب روپے مل چکے ہیں، ابھی تک وہاں سیف سٹی اور محکمہ انسداد دہشت گردی قائم نہیں کر سکتے، ہم سب کو مل کر ملک اور عوام کیلئے کام کرنا ہو گا، تمام قائدین اور اشرافیہ نے مل کر ملک کی تقدیر بدلنی ہے، یہ محنت، امانت اور دیانت سے ممکن ہے، ہم انتھک محنت اور لگن سے اپنی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔