ویب ڈیسک: حسن نصراللہ، جو لبنان اور دیگر عرب ممالک دونوں میں مقبول ہیں، حزب اللہ کا مرکزی چہرہ سمجھے جاتے ہیں ، انہوں نے حزب اللہ کو سیاسی اور عسکری طور پر مضبوط کیا۔
سيد حسن نصر اللہ سنہ 1960 میں مشرقی بیروت کے علاقے بورجی حمود میں پیدا ہوئے، ان کے والد ایک چھوٹی سی دکان کے مالک تھے اور حسن ان کے 9 بچوں میں سب سے بڑے تھے، ان کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد لبنان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی ، یہ ایک تباہ کن جنگ تھی جس نے بحیرہ روم کے اس چھوٹے سے ملک کو 15 سال تک اپنی لپیٹ میں رکھا ، اس وقت ان کا خاندان جنوبی لبنان میں ان کے آبائی گاؤں بسوریہ چلا گیا۔
حسن کی قیادت میں حزب اللہ اسرائیل کی ایک اہم مخالف کے طور پر ابھری، انھوں نے اسرائیلی افواج کے خلاف چھوٹے پیمانے پر جنگ کی پالیسی اپنائی اور ان کی یہ مزاحمتی تحریک سنہ 2000 میں بائیس سال بعد جنوبی لبنان سے اسرائیلی افواج کے انخلاء کا اہم سبب بنی۔1982 میں لبنان میں اسرائیلی در اندازی کے بعد حالات بدل گئے۔
حسن اور ان کے متعدد ساتھیوں نے امل تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی اور خود کو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لیے وقف کر دیا۔
حسن نصر اللہ نے امل سے علیحدگی کے بعد حزب اللہ نامی اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی جس کا مقصد جنوبی لبنان کی وادی بقا میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔
حسن نصراللہ نے 2004 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں بھی اہم کردار ادا کیا اور اس معاہدے کو عرب دنیا میں حزب اللہ اور حسن نصراللہ کی فتح کے طور پر دیکھا گیا۔
2005 میں لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد حسن نصر اللہ نے ملک کے مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان ایک ثالث کا کردار بھی بخوبی نبھایا۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ناختم ہونے والے حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تو حزب اللہ نے سرحد پر واقع اسرائیلی فوجی چوکیوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا اور اسے غزہ کے لیے ’بیک اپ فرنٹ‘ قرار دیا۔
اس دوران حسن نصر اللہ نے دعویٰ کیا حزب اللہ کے سرحد پار حملوں نے اسرائیلی افواج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے اور غزہ میں حماس پر توجہ مرکوز کرنے سے روکا ہے۔
انہوں نے اعلان کیا تھا کہ جب تک اسرائیل غزہ میں حملے نہیں روکے گی، حزب اللہ بھی اسرائیل کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔