اسلام آباد(ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ جب یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ایک فیصد افراد ٹک ٹاک کاغلط استعمال کررہے ہیں، تو سوشل میڈیا سائٹس پر پابندی حل نہیں، پی ٹی اے کے پاس ٹک ٹاک پر پابندی کا کوئی جواز نہیں ہے.
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہفتے کے روز کہا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ٹک ٹاک پر پابندی کا کوئی جواز فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔چار صفحات کے حکم میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی اے کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے پر حکومت کی پالیسی وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ سے طلب کریں اور 20 ستمبر کو رپورٹ پیش کریں۔
پی ٹی اے کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ معاملہ کابینہ کے ساتھ نہیں اٹھایا گیا۔ جج کے استفسار کا جواب دیتے ہوئے پی ٹی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ ٹک ٹاک پر پابندی غیر موثر ہے، کیونکہ اس تک ٹیکنالوجی کے دیگر ذرائع سے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ حکم نامے میں عدالت نے کہا یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ صرف 1 فیصد لوگ ٹک ٹاک کا غلط استعمال کر رہے ہیں، اس لیے سوشل میڈیا ایپلی کیشنز پر پابندی حل نہیں ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ سوسائٹی میں تنزلی کی علامت کو سوشل میڈیا سائٹس پر موجود مواد سے نہیں ملایا جا سکتا، عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کی غیر معمولی ترقی نے سوسائٹی میں بہت سے چیلنج سامنے لائے۔ جسٹس من اللہ نے کہا کہ ٹیکنالوجی کو بند نہیں کیا جا سکتا لیکن پی ٹی اے کو ٹیکنالوجی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ پی ٹی اے کے وکیل نے جواب دیا کہ ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ٹک ٹاک کے درمیان بات چیت جاری ہے اور ایپ پر سے پابندی جلد ہٹا دی جائے گی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد طیب شاہ نے عدالت سے جواب داخل کرنے کے لیے مزید وقت مانگا جس پر کیس کی سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔
واضح رہے کہ جولائی میں پی ٹی اے نے "نامناسب مواد" کو ہٹانے میں ناکامی پر دوبارہ ایپ تک رسائی کو روک دیا تھا۔
جسٹس من اللہ نے کہا کہ ٹیکنالوجی کو بند نہیں کیا جا سکتا لیکن پی ٹی اے کو ٹیکنالوجی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ پی ٹی اے کے وکیل نے جواب دیا کہ ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ٹک ٹاک کے درمیان بات چیت جاری ہے اور ایپ پر سے پابندی جلد ہٹا دی جائے گی۔