نیب ترامیم کو چیلنج کرنے پر مزید وضاحت کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ

07:34 AM, 29 Jul, 2022

احمد علی
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) میں ترمیم کے خلاف درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیب ترامیم کو چیلنج کرنے پر مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران معزز ججوں کے سامنے اپنے دلائل دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اسلام اور آئین دونوں میں احتساب پر زور دیا گیا ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور عوامی عہدیداروں کا احتساب آئین کی بنیادی جزو ہیں۔ جن اسلامی دفعات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ آئین میں درج ہیں۔ وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سزائے موت ختم ہوئی تو پہلے شریعت کورٹ میں چیلنج ہوگی۔ پارلیمان اگر سزائے موت ختم کر دے تو کیا وہ چیلنج نہیں ہو سکتی؟ کیا مفت تعلیم کا حق آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے؟ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آئینی ترامیم کیس میں بنیادی ڈھانچے کو تسلیم کر چکی ہے۔ مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی آئین کے تحت بنیادی حق ہے۔ بنیادی ڈھانچے کیخلاف آئینی ترمیم بھی ممکن نہیں ہے۔ جو ترامیم آئین سے متصادم ہیں انہیں کالعدم قرار دیا جائے۔ چیف جسٹس کا ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ بے نامی دار ایشو پر بھی وضاحت کریں۔ اگر خواجہ صاحب آپ اپنی گزارشات کا مختصر چارٹ بنا لیں تو بہتر رہے گا۔ آپ آئین کی اسلامی دفعات کا حوالہ دے رہے ہیں۔ آپ کے مطابق اگر احتساب ختم ہو جائے، چیک اینڈ بیلنس ہونا جمہوریت کیلئے بہت ضروری ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ کرپشن یہ ہے کہ آپ غیر قانونی کام کریں اور اس کا کسی کو فائدہ پہنچائیں۔ کرپشن بنیادی طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال اور خزانے کو نقصان پہنچانا ہے۔ اگر کہیں ڈیم بن رہا ہو اور کوئی لابی اس کی مخالفت کرے، وہ قومی اثاثے کی مخالفت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ احتساب گورننس اور حکومت چلانے کیلئے بہت ضروری ہے۔ عدلیہ کی آزادی اس لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں توازن برقرار رہ سکے۔ آئین کے آرٹیکل 4 پر کبھی تفصیل سے بحث نہیں ہوئی لیکن یہ بہت اہم ہے۔ بنیادی حقوق معطل ہو سکتے ہیں لیکن آرٹیکل 4 نہیں۔ ججز نے پرانے نیب قانون اور نئی ترامیم کے موازنے کیلئے چارٹ بنائے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کوئی ترمیم اگر مخصوص ملزمان کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہے تو وہ بتائیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں عدالت پارلیمنٹ کو قانون میں بہتری کا کہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نیب ترامیم کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا۔ آرٹیکل 199 کی درخواست میں ہائیکورٹ بنیادی حقوق سے آگے نہیں جا سکتی۔ بہتر رہے گا کہ معاملہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزڈم پہلے آجائے۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ اگر حکومت نیب قانون ختم کر دیتی تو آپ کی درخواست کی بنیاد کیا ہوتی؟ کیا عدالت ختم کیا گیا نیب قانون بحال کر سکتی ہے؟ آپ نے لکھا ہے ترامیم پارلیمانی جمہوریت کے منافی ہے۔ کئی ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچہ کے برعکس ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ بتائیں کہ کون سی ترمیم آئین کے برخلاف ہے۔ ہمارا کام یہ نہیں کہ آپ کو درخواست مزید سخت بنانے کا کہیں۔ آپ کا کام ہے ہمیں بتانا کہ کون سی ترمیم کس طرح بنیادی حقوق اور آئین سے متصادم ہے۔ کیا یہ دلائل قابل قبول ہے کہ کوئی قانون پارلیمانی جمہوریت کیخلاف ہونے پر کالعدم کیا جائے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔ پارلیمان کا اختیار ہے کہ مکمل آئین بھی تبدیل کر سکتی ہے۔ سزائے موت پارلیمان ختم کر دے تو ہم کیسے بحال کر سکیں گے۔ آپ کا انحصار اسلام پر ہے تو نیب ترامیم شریعت کورٹ میں کیوں نہیں چیلنج کرتے؟
مزیدخبریں