جوڈیشل کمیشن اجلاس پر سپریم کورٹ کے ایک اور جج نے خط لکھ دیا

02:04 PM, 29 Jul, 2022

احمد علی
جوڈیشل کمیشن کی گزشتہ روز کے اجلاس پر ایک اور سپریم کورٹ جج کا خط سامنے آ‌گیا. جسٹس سردار طارق مسعود نے چیف جسٹس اور جوڈیشل کمیشن کے ارکان کو خط لکھ دیا. جسٹس طارق مسعود کا خط میں کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس شروع ہوا تو چیف جسٹس نے اپنے نامزد ججز کے کوائف بارے بتایا، پھر جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی نے چار ججز کی تقرری کے حق میں جب کہ ایک جج کی تقرری کے خلاف رائے دی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ نے چیف جسٹس کے ناموں کی منظوری دی، میں نے بھی اپنی باری پر رائے دی اور جسٹس اطہر من اللہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی سپریم کورٹ میں تقرری کا کہا. جسٹس طارق مسعود نے خط میں مزید کہا کہ میں نے بھی سندھ ہائی کورٹ کے تین اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کی نامزدگی کو نامنظور کیا ۔ چیف جسٹسز ہائی کورٹس میں جسٹس اطہر من اللہ سینئر ترین جج ہیں، اٹارنی جنرل ، وزیر قانون اور بار کونسل کے نمائندوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے چار نامزد ججز کی تقرری کو نامنظور کیا. خط میں انہوں نے لکھا جسٹس قاضی فائز عیسی چیف جسٹس کی جانب سے نامزدگیوں کو نامنظور کرنے کی وجوہات بتا رہے تھے، جسٹس قاضی فائز عیسی کی رائے کے دوران ہی چیف جسٹس غیر معمولی اور غیر جمہوری عمل کرتے ہوئے کمیشن کا فیصلہ لکھو ائے بغیر اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ جسٹس طارق مسعود نے لکھا جسٹس قاضی فائز عیسی نے نامزد ججوں کو نامنظور کرنے کے حوالے سے میری رائے سے اتفاق کیا ، معاملہ واضح ہوگیا تھا کہ کمیشن کے پانچ ارکان نے نامزدگیوں کو نامنظور کر دیا تھا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال رائے سننے کے بعد فیصلہ سنانے کی بجائے اچانک میٹنگ سے اٹھ گئے، سپریم کورٹ ترجمان کیطرف جاری اعلامیہ حقائق کے برعکس ہے۔ سپریم کورٹ ترجمان جوڈیشل کمیشن ممبر ہیں نہ سیکرٹری۔ انہوں نے لکھ کہ سپریم کورٹ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اجلاس کو موخر کردیا گیا تاہم ا جلاس میں ارکان نے 5 چار کے تناسب سے پانچوں نام مسترد کیے۔جسٹس سردار طارق مسعود نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس صاحب فوری طور پر جوڈیشل کمیشن اجلاس کے درست منٹس جاری کریں،م جوڈیشل کمیشن کے تفصیلی منٹس پبلک کرنے سے افواہوں کا خاتمہ ہوگا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل سمیت مختلف بار ایسوسی ایشنز نے مشترکہ اعلامیے میں کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں پانچ جج صاحبان کی نامزدگی مسترد ہونے کے اکثریتی فیصلے کیساتھ کھڑے ہیں، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ،اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے وزیراعظم کی ہدایت پر جوڈیشل کمیشن میں اصولی موقف اختیار کیا. اعلامیے میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سینیارٹی اصول کے تحت رائے دینا قابل ستائش ہے، اعلیٰ عدلیہ میں جج صاحبان کی تعیناتیاں سنیارٹی اصول کے مطابق کی جائیں، سینیارٹی اصول کے بر خلاف مسلسل تعیناتیوں کے سبب عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوگی. واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کی تعیناتی سے متعلق گزشتہ روز ہونے والے سپریم جوڈیشل کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے پیش کیے گئے ناموں کو منظوری نہیں مل سکی تھی۔ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کیلئے چیف جسٹس کی جانب سے نامزد کیے گئے 5 ججز پر جوڈیشل کمیشن کے ارکان میں اختلاف رائے سامنے آیا جس کے بعد جوڈیشل کمیشن کے ممبران میں ووٹنگ کرائی گئی۔ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس کے نامزد ججوں کے خلاف 5 ووٹ آئے، 5 ووٹ مخالفت میں آنے پر اجلاس کچھ کہے بغیر ختم کردیا گیا۔ذرائع کے مطابق جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود، اٹارنی جنرل، اور وزیرقانون نے مخالفت میں ووٹ دیا،سندھ کے 2 ججز سے متعلق جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی نے بھی مخالفت میں ووٹ دیا۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن میں ججز کی تقرری کے حوالے سے ہونے والے فیصلے کو فوری طور پر میڈیا میں جاری کیا جائے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز تقرری کیلئے چیف جسٹس کی طرف سے پیش کردہ ناموں پر تفصیلی غور ہوا، مجھ سمیت 5 ممبران نے سندھ کے 3 اور لاہور ہائیکورٹ کے ایک جونیئر جج کے نام مسترد کیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ جسٹس طارق مسعود، اعظم نذیر تارڑ، اشتر اوصاف اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین نے بھی نام مسترد کیے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پانچوں ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز میں جونیئر ہیں، پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا نام ان چیف جسٹسز کے بعد پیش کیا جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں مزید لکھا کہ اجلاس میں طے ہوا کہ آئین کسی اسامی پر پیشگی تقرری کی اجازت نہیں دیتا، چیف جسٹس آف پاکستان بطور چیئرمین، کمیشن پر اپنے فیصلے مسلط نہیں کر سکتے، چیف جسٹس آف پاکستان اچانک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چھوڑ کر چلے گئے، جسٹس اعجاز الاحسن بھی اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں مزید لکھا کہ جوڈیشل کمیشن کے سیکرٹری چھٹیوں پر ہیں، قائم مقام سیکرٹری اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں میٹنگ منٹس بنائیں، قوم کی نظریں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس پر مرکوز ہیں، اجلاس میں کیا فیصلہ ہوا یہ جاننا عوام کا آئینی حق ہے، جوڈیشل کمیشن اجلاس کے بارے میں میڈیا میں غیر ضروری قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں لکھا کہ جوڈیشل کمیشن نے سندھ اور لاہور ہائیکورٹ کے 4 ججوں کے نام مسترد اور ایک نام پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
مزیدخبریں