ترک صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل پر حملے کی دھمکی دیدی

09:20 AM, 29 Jul, 2024

ویب ڈیسک: ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل پر حملے کی دھمکی دے دی۔ رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ شاید اسرائیل کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو نگورنو کاراباخ کے معاملے میں آرمینیا کا ہوا۔

تفصیلات  کے مطابق آبائی شہر رائز میں حکمراں جماعت کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رجب طیب اردوان نے کہا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو ہم نہیں کرسکتے۔ ہمیں اس قدر مضبوط ہونا چاہیے کہ اسرائیل فلطینیوں پر مظالم نہ ڈھاسکے۔ اسرائیل کو آرمینیا اور لیبیا کا حشر یاد رکھنا چاہیے۔

رجب طیب اردوان کا شمار اُن عالمی لیڈروں میں ہوتا ہے جنہوں نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی ہمیشہ کھل کر مذمت کی ہے اور اس حوالے عملی سطح پر بہت کچھ کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ملک کی دفاعی ساز و سامان کی صنعت کو سراہتے ہوئے جنگ کے امکانات پر بھی بات کی ہے۔

ترک صدر کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونے کے لیے طاقتور ہونا لازم ہے۔ اگر ہمیں اسرائیل کو مظالم سے روکنا ہے تو زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنا ہوگی۔

ترک صدر نے اسرائیل میں داخل ہوکر کارروائیاں کرنے سے حوالے سے کوئی تصریح نہیں کی۔ ان کی پارٹی نے بھی اس حوالے سے کوئی وضاحت جاری نہیں کی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی نے لیبیا میں 2020 میں اپنی فوج بھیج کر اقوام متحدہ کی قائم کردہ نیشنل اکارڈ آف لیبیا کی حکومت کی پشت پناہی کی تھی اور مغربی حمایت یافتہ باغی گروپوں کو پسپا کیا تھا۔

عالمی رہنماؤں نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ حزب اللہ کے خلاف وسیع البنیاد کارروائیوں سے گریز کرے کیونکہ ایسا کرنے سے خطے میں بڑی جنگ چھڑسکتی ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس موقع پر تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایک طرف غزہ میں لڑائی جاری ہے اور دوسری طرف حزب اللہ کو نشانہ بنانے سے لڑائی پھیل سکتی ہے اور یہ پورے خطے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔

برطانوی اخبار گارجین کے مطابق فرانس کے صدر ایمانویل میکرون کہتے ہیں کہ یہ وقت کشیدگی کو ہوا دینے اور اُس کا دائرہ وسیع کرنے کا نہیں بلکہ تحمل کے ساتھ معاملات کو درست کرنے کا ہے۔

میکرون نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کا گراف بہت بلند ہے۔ اس حوالے سے دانائی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ بہت سے نان اسٹیٹ ایکٹرز میدان میں ہیں جن سے براہِ راست تصادم کا سلسلہ دراز ہونے سے کسی بڑی علاقائی جنگ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

مزیدخبریں