پبلک نیوز: بھارت میں " گاؤ رکھشا" کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے جبکہ بھارتی مسلمانوں کو ڈرانے کیلئے مقامی گاؤ رکھشکوں نے بندوق لائسنس کیلئے درخواستیں دے دیں۔
تفصیلا ت کے مطابق مودی کے بھارت میں اقلیتیں بالخصوص مسلمان انتہائی غیر محفوظ اور خوف میں مبتلا رہتے ہیں،آئے روز بھارت میں انتہا پسند بی جے پی مسلمانوں کیخلاف پرتشددکارروائیوں کیلئے تیار رہتی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں پر مختلف حیلے بہانوں سےمظالم ڈھائے جا رہے ہیں جس میں اہم ترین ' گاؤ رکھشا' کے نام پر مسلمانوں پر بدترین ظلم ہے۔
دہلی شاہراہ پرواقع میوات کے علاقہ میں رہنےوالےمسلمانوں کو ہریانہ اور راجستھان کی سرحد پر ہندو انتہا پسندوں سے شدید خطرات لاحق ہیں،بھارتی مسلمانوں کا ڈر اور خوف اس وقت مزید بڑھ گیا جب مقامی گاؤ رکھشکوں نے بندوق لائسنس کیلئے درخواستیں دیں،گاؤ رکھشکوں کے کئی واٹس ایپ گروپس پر بڑی تعداد میں بندوق کے لائسنس کیلئے درخواست داخل کرنے کی اپیل پوسٹ کی جا رہی ہے۔
میوات کےموضع بسارو میں گاؤ رکھشکوں کے حملوں میں کئی مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔گاؤرکھشکوں کےحملوں کے بعد موضع بسارو کےمسلمانوں نے ڈیری فارمنگ کا کاروبار چھوڑ کر دیگر کام شروع کردیئے ہیں،موضع بسارو کے 27 سالہ محمد علی اور ان کے دونوں بھائیوں نے ڈیری فارمنگ ترک کرکے ڈرائیورنگ کا شعبہ اختیار کرلیا ہے،رواں سال عید الاضحی کے موقع پر بھی مسلمانوں کو قربانی کرنے اور جانور ذبح کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
گزشتہ سال 18 فروری کو بھارتی ریاست راجستھان میں گاؤ رکھشکوں نے 25 سالہ ناصر اور 35 سالہ جنید کو اغوا کے بعد زندہ جلا دیا تھا،جنوری 2023ءمیں بھی گائے لیجانے کے الزام میں تین مسلمان نوجوانوں کو اغواء کر کے شدید تشدد کے بعد شہید کر دیا گیا،سال 2018ء میں دو نوجوانوں کو ہندو انتہا پسندوں نے اس وقت حملہ کر کے شہید کیا جب وہ گائے کی کھال اتار رہے تھے،2018 میں قتل ہونے والے نوجوانوں کے واقعے کی تحقیقات کی گئی تو ثابت ہوا کہ مقتولین نے گائے کو ذبح نہیں کیا تھا بلکہ مردہ گائے کی کھال اتار رہے تھے اور وہ بے گناہ تھے۔
عیدالاضحیٰ کے موقع پر گائے ذبح کرنے کے حوالے سے سب سے زیادہ وہ ریاستیں متاثر ہیں جہاں پر بے جے پی کی حکومت ہے، بھارت میں گائے کے مسئلے پر مسلمانوں پر تشدد اور انہیں شہید کرنے کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں۔