ویب ڈیسک :(علی زیدی ) یورپی سائنسدانوں نے رواں سال حج کے دوران 1300 سے زیادہ عازمین حج کی موت کا ذمہ دار ’’ ہیٹ ویو’’ کو قرار دیا ہے جبکہ ہیٹ ویو میں اضافے کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی، غیر معمولی شدید گرمی اور درجہ حرارت میں اضافہ بتائی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 16 سے 18 جون کو عازمین حج کو47 درجہ سنیٹی گریڈ درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑا جو حرم تک پہنچتے پہنچتے تقریباں 51.8 سینٹی گریڈ سے تجاوز کرچکا تھا۔
ClimaMeter کے تجزیے کے مطابق، اگر انسانی مداخلت کے باعث موسمیاتی تبدیلی نہ ہوتی تو یہ درجہ حرارت تقریبا 2.5 سینٹی گریڈ کم ہوسکتا تھا۔
ClimaMeter کے سائنس دانوں نے 1979 سے 2001 اور 2001 سے 2023 تک کے موسمی نمونوں کا موازنہ کرنے کے لیے پچھلی چار دہائیوں کے سیٹلائٹ مشاہدات کا استعمال کیا۔
جائزے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ سعودی عرب میں ماضی میں بھی اسی طرح کے واقعات مئی اور جولائی میں پیش آئے تھے لیکن اب جون میں شدید گرمی کی لہروں کا سامنا ہے۔
" دوسری طرف فرانس کے نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ کے سائنسدان ڈیوڈ فرانڈا کا کہنا ہے کہ اس سال کے حج کے دوران مہلک گرمی کا براہ راست تعلق فوسل فیول جلانے سے ہے اور اس نے سب سے زیادہ کمزور حاجیوں کو متاثر کیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی نے ہیٹ ویوز کو زیادہ گرم، بار بار اور دیرپا بنا دیا ہے۔
یاد رہے کہ گرمی سے دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ 1,300 عازمین حج اموات میں شدید گرمی نے اہم کردار ادا کیا۔
سعودی عرب امریکا کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے اور سرکاری فرم سعودی آرامکو دنیا کی سب سے بڑی کارپوریٹ گرین ہاؤس گیس خارج کرنے والی کمپنی ہے۔
کاربن کمپنیوں کے اخراج کے ڈیٹا بیس کے مطابق، یہ دنیا کے تاریخی کاربن کے 4% سے زیادہ اخراج کے لیے ذمہ دار ہے۔