ویب ڈیسک: کارسرکار میں مداخلت کے الزام میں گرفتار وکیل ایمان مزاری اور ان کے شوہر کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا گیا۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے ایمان مزاری اور ان کے شوہر کے کیخلاف کارسرکار میں مداخلت کے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر دونوں میاں بیوی کو عدالت پیش کیا گیا۔
پراسیکیوشن نے ایمان مزاری اور ان کے شوہر ہادی علی کے 30 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس پر جج نے استفسار کیا کہ کیس کیا ہے کس لیے ریمانڈ مانگ رہے ہیں؟
پراسیکیوٹر راجا نوید نے بتایا کہ میں مقدمہ کا متن پڑھ دیتا ہوں ٹریفک کو روکا گیا تھا انگلینڈ کی ٹیم کا روٹ تھا، انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم کی روانگی تھی اسٹیٹ کی سکیورٹی مہیا کی جاتی ہے۔
انہوں نے دلائل دیے کہ دونوں میاں بیوی آئے اور بیریرن ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے، خاتون ملزمہ نے پولیس کو کہا کہ میں ایمان مزاری ہوں، روڈ تمہارے باپ کا نہیں، ابراہیم خان ٹریفک اہلکار نے بیریراز واپس لگانے کی کوشش کی تو اس کو مرد وکیل عبدالہادی نے مارا۔
پراسیکیوٹر راجا نوید کا کہنا تھا کہ بیریرا ہٹنے پر دو تین موٹرسائیکل روٹ توڑ کر آگے نکل گئے، مقامی پولیس کے پہنچنے پر یہ دونوں وکلاء پیچھے ہٹ گئے۔
جج نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ یہ تو مقدمہ کا متن پڑھ رہے ہیں آپ کی درخواست کیا ہے، جس پر پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ان ملزمان نے عوام کو اشتعال دلوایا ویڈیو اور وائس میچ کرانا ضروری ہے، جس پر جج نے استفسار کیا کہ جن بندوں نے روٹ توڑا وہ نہیں پکڑے گئے، جس پر پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ان کی شناخت کی جا رہی ہے۔
وکیل عطاء اللہ کنڈی نے مؤقف اپنایا کہ آپ کے سامنے کیسز آتے ہیں آپ بہتر جانتے ہیں کس کیس میں دہشتگردی کی دفعہ لگتی ہے، وکیل ملزمان کا کہنا تھا کہ ایمان مزاری کے کلائنٹ عدالت پیش ہونے تھے ان کو جلدی تھی، جلدی کی وجہ سے پولیس نے ایمان مزاری کو بیریری مارے جس کا میڈیکل موجود ہے، ایمان مزاری نے بھی کراس ویثرن کی درخواست دی ہے۔
وکیل ملزمان نے کہا کہ جتنا جرم کیا ہے اتنی سزا ملنی چاہیے یہ کار سرکار میں مداخلت کا کیس بنتا ہے۔
وکیل ملزمان قیصر امام نے کہا کہ پہلے ایک نعرہ لگتا ہے دہشتگردی تو یہ لوگ کر رہے ہیں، جس بندے کے ساتھ لڑائی ہوئی ہے وہ سادہ کپڑوں میں تھا۔
وکیل قیصر امام نے مؤقف اپنایا کہ اب سادہ کپڑوں والوں کو ہم اتنا سر پر چڑھا رہے ہیں، وکلا کے اوپر دہشت گردی کی دفعات لگا رہے ہیں جو جرم بنتا ہے وہ لگائیں، آپ 30 دن کا ریمانڈ کیوں مانگ رہے ہیں۔
پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ ہم نے تفتیش کرنی ہے سٹیٹ گیسٹ تھے ان کی سکیورٹی ہماری ذمہ داری ہے، سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا، پولیس اہلکار شہید ہوئے سری لنکن کھلاڑی زخمی ہوئے، ٹریفک اپڈیٹس آتی ہیں پہلے انفارم کیا تھا انگلینڈ کی ٹیم سٹیٹ گیسٹ ہے۔
وکیل قیصر امام نے مؤقف اپنایا کہ انگلینڈ کی ٹیم آئی ہے، ان کا دکھ ہے ان تک بھی یہ بات پہنچ گئی ہے، انگلینڈ کی ٹیم کو اس بات پر دکھ ضرور ہوا ہو گا کہ ہماری وجہ سے پورا شہر جام کر دیا۔
وکیل قیصر امام کا کہنا تھا کہ پولیس نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو بھی لگا دی اب کیا تفتیش کرنی ہے، مدعی کہہ رہا ہے ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں انہوں نے یہ کیا لیکن جرم کیا ہوا ہے۔
پراسیکیوٹر نے دلائل دیےی کہ ویڈیو جو لگی ہے، اس کا فرانزک کرانا ہے،فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ بھی کرانا ہے۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے ایمان مزاری اور ہادی علی کے جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
بعد ازاں، عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ایمان مزاری اور ہادی علی کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزمان کو پولیس کے حوالے کردیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز دارالحکومت اسلام آباد کی آبپارہ پولیس نے کار سرکار میں مداخلت کے الزام میں معروف وکیل اور سماجی کارکن ایمان مزاری کو شوہر سمیت گرفتار کر لیا تھا۔
چند دن قبل ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی جہاں پاکستان کے دورے پر آئی انگلینڈ کی ٹیم کے لیے راستے بند کیے جانے پر ان کی ٹریفک پولیس اہلکاروں سے تکرار ہوئی تھی۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا تیسرا میچ راولپنڈی میں کھیلا گیا تھا اور ٹیم کے اسٹیڈیم آنے اور وہاں سے واپس ہوٹل جاتے ہوئے مخصوص راستے کچھ دیر کے لیے بند کیے جاتے تھے۔
جمعہ کو بھی انگلینڈ کی ٹیم کی اسٹیڈیم روانگی کے موقع پر اسلام آباد کی زیرو پوائنٹ انٹرچینج پر راستے بند کیے گئے تھے اور اسی موقع پر راستے بند کیے جانے پر ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی ٹریفک پولیس اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی تھی اور انہیں سڑکوں پر لگی رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا۔
اسلام آباد پولیس نے واقعے کے بعد بیان میں کہا تھاکہ اس جوڑے نے سرکاری مہمانوں کی حفاظت کے لیے کیے گئے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی اور ان کے خلاف کار سرکار میں مداخلت اور سرکاری مہمانوں کی سیکیورٹی میں افراتفری پھیلانے پر مقدمہ درج کیا جائے گا۔