ویب ڈیسک: افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی نے پہلی مرتبہ چند افغان شہریوں کو ملک بدر کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی ترجمان سٹیفن ہبسٹرائٹ نے ایک بیان میں کہا ’یہ وہ افغان شہری ہیں جو سزا یافتہ مجرم ہیں اور جنہیں جرمنی میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اور جن کے خلاف ملک بدری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔‘
جرمن نیوز ویب سائٹ ڈار شپیگل نے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ مقامی وقت کے مطابق جمعے کی صبح پانچ بجے قطر ایئر ویز کا چارٹر طیارہ 28 افغانوں کو لے کر لائپزش ایئر پورٹ سے روانہ ہوا ہے۔میگزین کے مطابق یہ آپریشن دو ماہ سے جاری ’خفیہ مذاکرات‘ کا نتیجہ ہے جس میں قطر نے برلن اور طالبان حکام کے درمیان بات چیت میں کردار ادا کیا۔
حکومتی ترجمان سٹیفن ہبسٹرائٹ نے تفصیل میں جائے بغیر کہا کہ جرمنی نے ملک بدری میں سہولت کے لیے اہم علاقائی شراکت داروں سے مدد کے لیے کہا تھا۔
جرمنی نے طالبان کے سال 2021 میں اقتدار میں آنے کے نتیجے میں اپنا سفارتخانہ کابل میں بند کر دیا تھا اور افغان شہریوں کی ملک بدری کو مکمل طور پر روک دیا تھا۔
افغان شہریوں کو ایسے وقت پر ملک سے نکالا گیا ہے جب مشتبہ مہاجرین کی جانب سے سنگین الزامات میں ملوث ہونے پر جرمن حکومت کو غیرقانونی مائیگریشن اور جرائم پیشہ پناہ گزنیوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔
گزشتہ ہفتے بھی ایک 26 سالہ شامی پناہ گزین نے میلے کے دوران چاقو کے حملے میں تین افراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کیا تھا۔ ملزم کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس کا تعلق دہشت گرد تنظیم داعش سے ہے۔
مشتبہ شخص کو کئی ہفتے پہلے بلغاریہ ڈی پورٹ کرنا تھا لیکن تلاش کرنے میں ناکامی پر آپریشن مکمل نہ ہو سکا۔
ان حملوں کے بعد جرمنی میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور سنگین جرائم میں ملوث افراد کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔