پی ٹی آئی کے احتجاج کے بعد گورنر راج کی باتیں،گورنرراج  آخر ہے کیا؟

05:41 PM, 30 Nov, 2024

(ویب ڈیسک ) پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے بعد گورنر راج لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں  ۔ہم آج جانتے ہیں کہ گورنرراج ہے کیا اور  کس صورت میں لگ سکتا ہے۔

  26 نومبر کے پی ٹی آئی کے احتجاج اور ڈی چوک میں امن وامان خراب ہونے ، خونی احتجاج کے بعد خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانے کی باتیں ہورہی ہیں ، وفاقی وزیراطلاعات کا کہنا ہے کہ کوئی گورنر راج نہیں لگ رہا لیکن دوصوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف پر پابندی کی قرارداد منظور ہونے کے بعد اب یہ امر بعید از قیاس نہیں خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگنے کی خبر کسی بھی وقت سامنے آسکتی ہے .

گورنر راج کیا ہے ؟

ایک صوبے میں وزیراعلیٰ اور صوبائی اسمبلی کے اراکین عوام کے منتخب کردہ نمائندے ہوتے ہیں جو اس صوبے کے حکومتی اور انتظامی امور چلاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبوں میں وفاق کا نمائندہ گورنر بھی موجود پوتا ہے۔

عام حالات میں گورنر کا عہدہ محض علامتی ہوتا ہے جبکہ صوبے میں حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کروانا منتخب صوبائی حکومت کے ذمے ہوتی ہے۔

مگر جب گورنر راج لگتا ہے تو ایک محدود مدت کے لیے تمام تر اختیارات گورنر کے پاس آ جاتے ہیں اور وزیراعلیٰ اور ان کی اسمبلی بے اختیار ہو جاتی ہے۔

آئین پاکستان کے دسویں باب میں دو شقیں ایسی ہیں جن کی بنیاد پر صوبے میں ایمرجنسی یا گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں آرٹیکل 232 اور 234 شامل ہیں۔

اگر صدرِ پاکستان سمجھتے ہیں کہ پاکستان یا اس کے کسی حصے کو جنگ یا بیرونی خطرات لاحق ہیں، یا ایسی اندرونی شورش ہے جو صوبائی حکومت کے بس کی بات نہیں، تو وہ ایمرجنسی اور گورنر راج نافذ کر سکتے ہیں۔

تاہم اندرونی خلفشار کے باعث لگنے والی ایمرجنسی کی صورت میں اس فیصلے کے نفاذ سے پہلے اس کی صوبائی اسمبلی سے توثیق لازم ہے۔

اسی شق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر صدر اپنے طور پر ہی یہ فیصلہ کر لیں تو اس صورت میں انھیں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دس روز کے اندر اپنے فیصلے کی توثیق کروانا ہو گی۔

ایسی ایمرجنسی کی صورت میں اس صوبے کے انتظامی امور اور قانون سازی کا اختیار وفاق میں پارلیمان کے پاس منتقل ہو جائے گا۔

کیا خیبر پختونخوا ہائیکورٹ کے اختیارات معطل ہو جائیں گے؟

وفاقی حکومت خود یا صوبائی گورنر کو اختیار دے سکتی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے نمائندے کے طور پر وہاں تمام امور سرانجام دیں۔ تاہم صوبے کی ہائی کورٹ کے اختیارات وفاقی حکومت یا گورنر کو منتقل نہیں ہوتے۔

اب آرٹیکل 234 کے تحت اگر صدر کو صوبائی گورنر یہ رپورٹ پیش کر دے کہ صوبے میں ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ جس میں صوبائی حکومت آئین کے وضع کردہ طریقہ کار کے تحت کام نہیں کر سکتی، تو وہ یہاں گورنر راج نافذ کرتے ہوئے تمام اختیارات اپنے پاس رکھ سکتے ہیں یا صوبے میں اپنے نمائندے گورنر کے حوالے کر سکتے ہیں۔

آئین کے مطابق اس صورت میں صوبائی اسمبلی کے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل ہو جاتے ہیں جبکہ ہائی کورٹ کے اختیارات نہیں لیے جا سکتے۔

گورنر راج کی مدت کتنی ہوسکتی ہے؟

گورنر راج کی مدت صرف دو ماہ ہو سکتی ہے اور اس کی توثیق بھی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے کروانا ہوتی ہے۔

جبکہ گورنر راج میں مشترکہ اجلاس کے ذریعے ایک وقت میں صرف دو ماہ کی توسیع ہی کی جا سکتی ہے۔ جبکہ اس کی کل میعاد چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔

اگر اس دوران قومی اسمبلی تحلیل ہو بھی جائے تو صوبے میں گورنر راج تین ماہ تک نافذ رہے گا جب تک کہ قومی اسمبلی کے انتخابات نہ ہو جائیں یا سینیٹ اس ضمن میں کوئی فیصلہ کر لے۔

کیا گورنر راج کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے؟

یہ آئین کا دسواں باب ہے اور اسی کی شق نمبر 236 کے تحت اس باب میں موجود کسی بھی آرٹیکل کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

 تاہم بی بی سی کے مطابق  اب تک لگنے والی تقریباً تمام ہی ایمرجنسیز اور گورنر راج کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا ہے۔

 قانونی ماہرین کا کہنا ہے  کہ گورنر راج لگنے کی صورت میں صوبائی حکومت کے پاس یہ اختیار موجود ہوتا ہے کہ وہ صدر کے فیصلے، چاہے اس کی توثیق پارلیمان نے کر دی ہو، کو عدالت میں چیلنج کر دیں۔

صدر کے پاس ایمرجنسی یا گورنر راج نافذ کرنے کے اختیارات نہایت محدود ہیں اور انھیں ایسا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے یا عدالت میں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ صوبے میں حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ انھیں یہ انتہائی اقدام لانا پڑا۔‘

2009 میں صدر آصف علی زرداری نے گورنر راج لگاتے ہوئے صوبائی گورنر سلمان تاثیر کو تمام اختیارات سونپے مگر یہ حکم چند دن ہی چل پایا اور عدالت میں یہ فیصلہ چیلنج ہوا اور اس وقت کی حکومت کو یہ آرڈر واپس لینا پڑا۔

پاکستان میں کب کب کن صوبوں میں گورنر راج نافذ کیا گیا ہے؟

سب سے پہلے تو ملک میں مارشل لا کے تمام ادوار میں صوبوں میں گورنر راج نافذ رہا اور تمام اختیارات گورنروں کے پاس رہے۔

حالیہ تاریخ میں بلوچستان میں 2013 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے صوبائی حکومت ختم کر کے آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت وہاں گورنر راج نافذ کیا تھا۔ اس کی وجہ کوئٹہ میں شیعہ مظاہرین کا دھرنا تھا جو انھوں نے دو خودکش حملوں میں اپنے برادری کے ایک سو زائد افراد کی ہلاکت کے بعد دیا تھا۔

پنجاب میں سابق صدر آصف علی زرداری نے 2009 میں بھی گورنر راج نافذ کیا تھا۔

انھوں نے وزیراعلٰی کے عہدے سے شہباز شریف کی نااہلی کے بعد پیدا ہونے والے بحران سے بچنے کے لیے گورنر راج نافذ کرتے ہوئے انتظامی اختیارت گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو سونپ دیے تھے۔ تاہم چند ہفتوں بعد ہی یہ رول ختم کیا گیا۔

گورنر راج کے دوران بنیادی شہری حقوق تو پہلے کی طرح ہی رہتے ہیں تاہم گورننس کا تمام انتظام صوبائی حکومت کے پاس نہیں رہتا۔

‘البتہ اگر گورنر وفاقی حکومت کی مشاورت سے بعض بنیادی پابندیاں عائد کر دیں تو ان کے پاس ایسا کرنے کا اختیار موجود ہوتا ہے۔‘

ماضی میں اس بات کی مثالیں موجود ہیں کہ پاکستان کے کئی صوبوں میں گورنر راج نافذ کیے گئے۔ خود وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق صوبہ سندھ میں آج تک تین گورنر راج لگ چکے ہیں۔

جنوری 2013 میں بھی کوئٹہ میں خودکش اور کار بم دھماکے میں 90 سے زائد افراد کی ہلاکت کے پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے صوبے میں گورنر راج نافذ کردیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے چچا چوہدری الطاف حسین نے بھی بطور گورنر پنجاب 1993 کی سیاسی کشیدگی کے دوران بہت اہم کردار ادا کیا تھا اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے صوبے میں کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں کو صدر غلام اسحق خان کے ساتھ مل کر انتظامی اقدامات کے ذریعے ناکام بنایا تھا۔ انہیں بے نظیر بھٹو نے 1994 میں اپنی حکومت آنے کے بعد دوبارہ بھی گورنر بنایا تھا۔

سینیئر صحافی حامد میر کے مطابق پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف گورنر راج کے نفاذ کے بعد آئین میں ترمیم کی گئی تھی اور آرٹیکل 232 کے تحت اس امر کو یقینی بنایا گیا تھا کہ صوبائی حکومت کی مرضی کے بغیر گورنر راج نافد نہ ہو۔

حامد میر کے مطابق 70 کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے تو پنجاب میں پولیس نے ہڑتال کردی تھی جسے ناکام بنانے کے لیےگورنر مصطفی کھر کو خصوصی اختیارات دیے گئے تھے۔

بطور گورنر ان کا دور سب سے زیادہ مشہور ہوا تھا ۔ گورنر مصطفیٰ کھر نے پولیس کی ہڑتال ناکام بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ذریعے تھانوں اور ٹریفک کا انتظام چلانا شروع کردیا تھا اور بعد میں فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) بھی تشکیل دی گئی جس کے ذریعے وفاق صوبوں میں براہ راست انتظامی امور میں مداخلت کرسکتا تھا۔

مزیدخبریں