آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس:جسٹس منیب اختر نہ آئے،سماعت ملتوی

12:31 PM, 30 Sep, 2024

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت  کےدوران جسٹس منیب اختر کمرہ عدالت نہیں آئے جبکہ 4 رکنی بینچ کمرہ عدالت میں پہنچا۔بعد ازاں عدالت نے سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔

تفصیلا ت کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل بینچ میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ کیس کے حوالے سے لارجر بینچ آج بنا تھا، کیس کا فیصلہ ماضی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ ہم جسٹس منیب اختر سے درخواست کریں گے کہ مقدمے کی سماعت میں بیٹھیں،اگر وہ نہیں آتے تو کل دوبارہ کمیٹی کا اجلاس بلائیں گے، کمیٹی کے اجلاس میں کسی اور جج کو بینچ میں شامل کریں گے۔آج کیلئے معذرت کل ہر صورت مقدمے کی سماعت ہوگی۔

چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں جسٹس منیب اختر کے خط کی آخری سطور پڑھیں اور کہا کہ جسٹس منیب اختر نے خط میں کہا کہ کمیٹی پر اعتراض کی وجہ سے بینچ میں نہیں بیٹھوں گا،جسٹس منیب نے کہا کہ کیس سننے سے معذرت نہیں کررہا مگر کمیٹی کے بنائے گئے موجودہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا۔

جسٹس منیب اختر نے خط میں کہا کہ بینچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیا جائے،میرے خط کو نظر ثانی کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کے خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میری خیال سے ججز کا خط عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکتا۔ہم ابھی اُٹھ رہے ہیں،جسٹس منیب اختر کو درخواست کررہے ہیں کہ وہ بینچ میں شامل ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس منیب اختر نے آج مقدمات کی سماعت کی ہے وہ ٹی روم میں بھی موجود تھے، ان کا آج کی سماعت میں شامل نہ ہونا ان کی مرضی تھی، ہم کل دوبارہ اس نظرثانی کیس کی سماعت کریں گے، امید کرتے ہیں کہ جسٹس منہب اخترکل سماعت میں شامل ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کیس کے حوالے سے لارجر بینچ بنا تھا، کیس کا فیصلہ ماضی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا، قانون کا تقاضا ہے نظرثانی اپیل پر سماعت وہی بینچ کرے،سابق چیف جسٹس کی جگہ میں نے پوری کی، جسٹس اعجاز الاحسن کی جگہ جسٹس امین الدین کو شامل کیا گیا۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ جسٹس منیب اختر سماعت میں شامل ہو، ہم جسٹس منیب کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ بینچ کی تشکیل نو ہوگی۔

بعدازاں عدالت عظمیٰ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

یاد رہے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں کو 23 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔

یاد رہے کہ 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔

اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تھی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا تھا۔

بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا جبکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے اور اس کی نااہلی کا فیصلہ دیا تھا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا۔

اس معاملے پر مختلف نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن ان درخواستوں پر سماعت نہیں ہوئی تھی۔

آرٹیکل 63 کیا ہے؟

آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔

فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔

مزیدخبریں