ویب ڈیسک: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور قانون دان بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ سپروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے تحت بنائی گئی کمیٹی میں اگر 3 ججز نہیں بیٹھتے تو بینچ کی تشکیل کے لیے فل کورٹ کو ہی فیصلہ کرنا چاہیے۔
تفصیلا ت کے مطابق سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں ہارس ٹریڈنگ نام کا ایک کینسر تھا، پارلیمنٹ کے نمائندے اپنے ووٹ بیچ کر حکومت گرا دیتے تھے، ہارس ٹریڈنگ کو ختم کرنے کے لیے آرٹیکل 63 اے بنایا گیا تھا، حال ہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ سپروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے تحت بنائی گئی کمیٹی میں 3 جج صاحبان کا بیٹھنا ضروری ہے جن میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور چیف جسٹس کے نامزد کردہ جج جسٹس امین الدین شامل ہیں، اس کمیٹی نے آرٹیکل 163 نظرثانی کیس کے حوالے سے بینچ کا فیصلہ کرنا تھا لیکن جسٹس منصور علی نے کہا کہ میں کمیٹی میں بیٹھنے کے لیے دستیاب نہیں ہوں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کمیٹی میں 2 ممبرز رہ جائیں تو ہماری نظر میں وہ کمیٹی بینچ کا فیصلہ نہیں کرسکتی، کمیٹی کے 2 ارکان نے آرٹیکل 63 نظرثانی کیس کی سماعت کے لیے 5 رکنی بینچ تشکیل دے دیا جس میں جسٹس منیب اختر بھی شامل تھے، ہم نے فیصلہ کیا کہ اس پر اعتراض کریں گے کہ بینچ درست طریقے سے تشکیل نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آج جب سماعت شروع ہوئی تو جسٹس منیب اختر نے شاید اسی وجہ سے بینچ میں نہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا، چنانچہ جب سماعت کے لیے 4 ججز بیٹھے تو ہم نے اعتراض کیا کہ نظرثانی کیس پر سماعت کے لیے بینچ کی تشکیل درست طریقے سے نہیں ہوئی، جب تک کمیٹی میں 3 ججز نہیں ہوں گے، بینچ نہیں بن سکتے،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میری نظر میں یہ ضروری نہیں ہے ورنہ یہ سارا کام ختم ہوجائے گا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو جب تک عدالت معطل نہ کردے یہ جائز قانون ہے، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کل بینچ کی تشکیل کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔