سائفرکیس میں سزامعطل،عمران خان اور شاہ محمودقریشی بری

04:01 PM, 3 Jun, 2024

ویب ڈیسک:  اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں سزا کیخلاف عمران خان اور شاہ محمود کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت کی ۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل سلمان صفدر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

یف آئی اے پرسیکیوٹر عدالت میں نہ پہنچ سکا۔

جونیئر کونسل نے کہا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر ح راستے میں ہیں 20 منٹ میں پہنچ جائیں گئے۔

یہ بھی پڑھیں: بریکنگ نیوز!عمران خان اورمرادسعید بری

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ریگولر ڈویژن بنچ کینسل کیا تاکہ یہ کیس سن سکیں،کیا حامد علی شاہ صاحب نے وکالت نامہ واپس لے لیا ہے۔

اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حامد علی شاہ صاحب سے ابھی بات ہوئی وہ والدہ کے پاس معروف ہسپتال میں ہیں۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے ہمیں ٹائم لائن دی تھی۔

پراسیکیوشن نے کہا کہ سلمان صفدر بے شک دلائل کو آغاز کر دیں۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے پہلے کہا تھا اور پھر 11 بجے ہم نے ٹائم کا بتا دیا تھا۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی وجہ سے ریگولر ڈی بی کینسل کی ہے اور سرکاری وکلاء نہیں ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب  نے ریمارکس دیئے کہ میرا نام حسن ہے، میاں گل اورنگزیب خاندانی نام ہے،  یا آپ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کہیں اور یا آپ جسٹس حسن کہیں۔

بانی پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل 

بیرسٹرسلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے سائفر بانی پی ٹی آئی کو دیا، اس متعلق کوئی دستاویز نہیں.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس متعلق تو آپ کے کلائنٹ کا اپنا اعتراف بھی موجود ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ یہ تو پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات ثابت کریں، قانون بڑا واضح ،اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں ، پراسیکیوشن نے کیس ثابت کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔

بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے لیے سرکاری طور پر مقرر وکلا صفائی سے جسٹس حسن اورنگزیب نے مکالمے میں استفسار کیا کہ کیا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد دلائل دیئے گئے ؟ آپ نے اس سے پہلے سزائے موت کا کوئی ٹرائل کیا ہے؟ اگر انہوں نے کیسز لڑے ہیں تمام کیسز کی لسٹ عدالت میں جمع کروا دیں۔

عدالت نے ٹرائل میں ملزمان کے لیے مقرر سرکاری وکلا صفائی کو ہدایت کردی۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ رات 12 بجے تا بیانات قلم بند کیے جاتے ہیں اور صبح 8 بجے ملزمان کے 342 کے بیان کے لیے بلا لیا،جب 342 کا بیان ریکارڈ ہو اس دن فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ ساڑھے 11 بجے 342 کا بیان ریکارڈ ہونا شروع ہوا، 1 بجے تک جاری رہا۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے دوران سماعت کہا کہ اگر سائفر گم گیا تو پھر سائفر پاس رکھنے کا چارج کیسے لگ سکتا ہے؟ یہ کیسا چارج ہے کہ سائفر پاس رکھ لیا، گم گیا یا کسی کو دے دیا، لاپرواہی کا الزام جو بانی پی ٹی آئی پر لگا ہے یہ الزام ان ہر لگتا ہی نہیں ، 4 گواہان کے مطابق سائفر کی حفاظت اعظم خان کی ذمہ داری تھی، 2 سال تحقیقات ہوئیں اس کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی ، باقی 8 کاپیاں بھی ایف آئی آر کے بعد وآپس ہوئیں جو 8 کاپیاں لیٹ آئیں انکے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی، جب ثبوت کو ضائع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو 201 لگتی ہے سائفر تو انکے پاس موجود ہے۔

 وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوشن نے اضافی دستاویزات کی درخواست دی جس کا مطلب ہے کہ وہ کیس ثابت نہیں کر سکے، سائفر ڈاکومنٹ ، سائفر متن ریکارڈ پر نہیں آیا راجہ رضوان عباسی سپریم کورٹ ، ہائیکورٹ ، ٹرائل کورٹ کہتے رہے، کلاسیفائیڈ سیکورٹی بک نہیں دے سکتے ،حامد علی شاہ صاحب نے کہا بک دے سکتے ہیں کیونکہ رولز موجود ہیں ، جب مطلع کر دیا گیا تھا تو بک کے رولز کے مطابق انہوں نے انکوائری نہیں بیٹھائی ، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ ہے معمولی لاپرواہی سے کرمنل ایکٹ ثابت نہیں ہوتا ۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پراسیکیوشن یہ بات کرتی رہی کہ سائفر کے بغیر کیس سنا جا سکتا ہے،جب ثابت کرنے وقت آیا میدان چھوڑ کر بھاگ گئے،پھر بعد میں اضافی ثبوت دینے کی درخواست دے دی،آپ نے دس دس سال سزائیں سنائیں کیا بھول گئے تھے ثبوت جمع کرانے کی درخواست دینی پڑی۔

سلمان صفدر کی جانب سے مختلف عدالتی نظریوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ 3 چیزوں کو میں عدالت میں بیان کرنا چاہتا ہوں ،3 چیزیں عدالت میں پیش نہیں کی گئی سائفر ڈاکومنٹ نہیں آیا ، سائفر کا کانٹینٹ اور سائفر بک لیٹ ٹرائل کورٹ میں پیش کی گئی، سائفر سے متعلق بک لیٹ راجہ رضوان عباسی نے ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں کی اور شاہ صاحب ہائیکورٹ میں لے آئے۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذالفقار علی نقوی کمرہ عدالت پہنچ گئے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان خود کہتے ہیں کہ سائفر گم ہو گیا کے دفتر خارجہ کو آگاہ کر دیا ہے،اعظم خان نے اپنے بیان میں بتایا ملٹری سکریٹری ، اے ڈی سے اور دفتر کا سٹاف ڈھونڈتے رہا،دفتر خارجہ کو آگاہ کرنے کے بعد آئی بی نے انکوئری کرنی تھی جو نہیں کی گئی۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میری استدعا ہے کے ملزمان کو تمام چارجز سے ڈسچارج کیا جائے ،جس سورس سے آیڈیوز ویڈیوز آتی ہیں اسکی آئی پی ایڈریس ٹریس نہیں ہوئی، عدالت میں کسی مخصوص ملک کا نہیں بتایا گیا جس کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ،جب ہم ضمانت پر آئے تو انہوں نے کہا ضمانت کا حق حاصل نہیں،پھر ہم اپیل میں گئے وہاں  بھی کہا گیا اپیل کا حق بھی نہیں مل سکتا۔

سلمان صفدر نے کہا کہ نقوی صاحب نے کہا ان کو کھانسی آتی تھی درخواست دیتے تھے، یہ بات درست ہے ہم نے 55 درخواستیں دیں،جج صاحب نے کام ہی ایسا کیا کیا کرتے،آخر میں آ کر کہتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ کیس واپس بھیجا جائے تا کہ غلطیاں ختم کی جائیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب  نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس بات کو چھوڑیں ہم جانیں پراسیکیوشن جانے،ٹرائل کورٹ میں جو پہلے 2 راؤنڈ تھے اس میں جراح آپ نے 
کی تھی ناں۔

سلمان صفدر نے کہا کہ جی جی بلکل ایسا ہی ہے۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ سماعت پر پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کیس کو  ٹرائل کورٹ واپس بھیج دیں اس میں خامیاں ہیں، سلمان صفدر صاحب آپ اس پر کیا کہنا چاہتے ہیں وہ بتا دیں۔ 

سلمان صفدر نے کہا کہ آج ہمیں اس کیس میں 3 ماہ ہو گئے ہیں ہم بہت آگے نکل گئے ہیں۔

عدالت  نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذولفقار علی نقوی صاحب کی جانب سے کہا گیا کیس کو میرٹ پر نہیں سنا جا سکتا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ سے قانون طور پر معاونت چاہتے ہیں۔

سلمان صفدر  نے کہا کہ وکلاء کی مالی اور دماغی کی بھی بہت پنشمنٹ ہو چکی ہے،ہر گواہ کو تین تین مرتبہ بلایا گیا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو دلائل دیتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا ہے۔

وکیل سلمان صفدر  نے کہا کہ جو بھی ٹرائل کورٹ میں غلطیاں ہوئی ہیں وہ پراسیکیوشن کی جانب سے کی گئی ہیں، کیس کا ریمانڈ بیک کرنا آئین کے آرٹیکل 13 اے کی خلاف ورزی ہو گی۔

ذولفقار علی نقوی  نے کہا کہ درخواستیں دائر کی گئیں کہ صاف شفاف ٹرائل نہیں ہو تو کیس ریمانڈ بیک کر دیں،جو مواد عدالت میں پیش نہیں کیا گیا میں اسکو عدالت میں پیش کرنا چاہتا ہوں،میں 164 کا بیان ہے اسکو عدالت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ 

بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلاء نے کیس ریمانڈ بیک کی مخالفت کردی۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ 164 کا بیان ایک کمزور ثبوت ہے،آپ یہ کہتے ہیں دیگر ممالک سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں،آپ نے 10 سال سزا دیدی، کس کو 10 سال اندر رکھنے کے لیے ہو سکتا تھا نہیں ہو سکتا، اگر ہم آپ کی بات کو مان بھی لیں پھر بھی پراسیکیوشن نے شواہد دینے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ  آپ قانون کی منشی پڑھ کر بات کریں،آپ نے کہا کہ ہمارے باہر کے ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے تھے،آپ نے کسی کو سزائے موت کی سزا دینی تھی،چلیں آپ نے 10 سال کی سزا سنائی مگر کسی کو آپ نے 10 سال کےلئے رکھ کر بھول جانا ہے،پراسیکیوشن کا کیس ہے،تو سارا کچھ پراسیکیوشن نے ہی مہیا کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر ذولفقار نقوی پربرہمی کااظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جو پوچھا جارہا ہے اسی کا جواب دیں،سیکشن (5)میں ایسا کچھ نہیں کہا جو آپ بتا رہے ہیں،آپ خالی یہ کہہ رہے ہیں "تعلقات خراب ہو سکتے تھے" قانون کی منشا یہ نہیں۔

عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر کو ہدایت  کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ (5)ون سی پڑھیں آپ کا کیس یہ ہے،جان بوجھ کر سائفر کاپی بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے پاس رکھی اس سے متعلق بتائیں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہ کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بار بار کہا گیا سائفر کاپی کے ساتھ یہ نا کریں،342 کے بیان میں بانی پی ٹی آئی عمران خان مان رہے ہیں۔ 

عدالت  نے ریمارکس دیئے کہ اگر وہ کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں جان بوجھ کر رہے ہیں۔

عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر کو ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ثابت کرنا ہے۔

ذولفقار علی نقوی نے کہا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی سائفر عوام کے سامنے لایا، سائفر ایک کلاسیفائیڈ دستاویز ہے، سابق وزیراعظم نے سائفر کا کنٹینٹ بھی پبلک کیا جس سے مختلف ممالک سے تعلقات خراب ہوئے۔

عدالت  نے ریمارکس دیئے کہ یہ کہنا کہ "یہ نا کرو" یہ الگ چیز ہے آپ نے رولز دیکھنے ہیں۔

عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کس نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو رولز کے مطابق ڈائریکشن دی ؟۔

اسپیشل پراسیکیوٹر  نے کہا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ وہ سائفر کاپی اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے۔

عدالت  نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو رولز ہیں کوئی الگ سے قانون تو نہیں،سپریم کورٹ کا قانون واضع ہے جہاں ملزم تسلیم بھی کر لے تو پراسیکوشن نے ثابت کرنا ہے،اگر آپ کاپی ٹرائل کورٹ کو دیکھا دیتے تو پھر پراسیکوشن کا کیس بن سکتا تھا،پتہ تو چلتا جو افسانہ ہے وہ افسانہ ہے کیا ؟کورٹ کے اندر کلاسیفائیڈ نہیں ہوتا ، کورٹ میں قانون کے طریقہ کار بتا دیا ہے کلاسیفائیڈ کو ڈیل کیسے کرنا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ثبوت میں بات بھی موجود نہیں کہ عمران خان کو سائفر واپس کرنے کے متعلق علم تھا۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ جلدی سے نہ کراتے تو بہت سی چیزیں ثابت ہو جاتیں،ہم نے سزا معطلی درخواست کو سائڈ پر رکھ کر کہا تھا ہم درخواست سنیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے سائفر کیس میں سزاوں کے خلاف اپیلوں پرمحفوظ فیصلہ سناتے ہوئےبانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزامعطل کرتے ہوئے انہیں بری کردیا۔

کیس کا فیصلہ چیف اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب  نے سنایا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کیے تھے۔

اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کیا تھا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ کو مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کی تھی۔

واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

مزیدخبریں