ویب ڈیسک: سینئر تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے کہ فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ رہے ہیں،ان کے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ میں کافی تعلقات تھے،شہباز شریف سے ملاقات کی بھی بہت کوشش کی گئی لیکن شہباز نے ملاقات سے انکار کردیا۔
پاک فوج نے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لیے جانے کے اعلان پر حامد میر نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ پھر وہ تمام صحافی اور تجزیہ نگار بے نقاب ہو گئے جو کہتے تھے یا اللہ یا رسول جنرل فیض بے قصور ۔
یہ بھی پڑھیں: قریبی رشتہ دارکی خاتون سےشرمناک حرکت کہ انسانیت بھی شرماگئی
حامد میر کا کہنا تھا کہ جنرل فیض کی گرفتاری کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کو ہو گا کیونکہ وہ تحریک انصاف کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرتے تھے اور تحریک انصاف ان سے ڈکٹیشن نہیں لے رہی تھی کیونکہ وہ اپنے ذاتی انتقام کے لئے ایک پارٹی کو استعمال کر رہے تھے۔
حامد میر نے یہ بھی کہا کہ وہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے تحقیقات سے بچنے کی کوشش کرتے رہے اور شہباز شریف سے اُنہوں نے ملاقات کی سر توڑ کوشش کی، ان کو پیغامات بھجوائے بلکہ شہباز شریف صاحب کی کابینہ میں شامل کچھ لوگوں نے بھی سفارش کی جنرل فیض کی کہ شہباز شریف صاحب آپ ان سے ملاقات کر لیں، لیکن شہباز شریف صاحب نے جنرل فیض کے ساتھ کسی بھی قسم کا رابطہ کرنے اور ان سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: معروف پاکستانی اداکارہ نمرہ خان کو اغواء کرنے کی کوشش ناکام، ویڈیو بھی آگئی
حامد میر نے کہا اس کے بعد حال ہی میں کچھ انویسٹی گیشنز ہوئیں، جنرل فیض کے بارے میں یہ افواہیں پھیلائی جاتی تھیں کہ وہ بڑی پابندیوں کا شکار ہیں وہ کسٹڈی میں ہیں یا ہاؤس اریسٹ ہیں، ایسی کوئی بات نہیں تھی وہ بالکل آزاد تھے، اور ان کی آزادی ان کی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی کیونکہ ان کے رابطوں کو مانیٹر کیا جارہا تھا۔
حامد میر نے کہا کہ اس دوران یہ بھی پتا چلا کہ جنرل فیض حمید کا 9 مئی 2023 کے واقعات کی پلاننگ میں کردار تھا، بغاوت کی جو کوشش تھی اس میں بھی ان کے مشورے شامل تھے۔
حامد میر نےکہا کہ پچھلے سال فیض حمید کے حوالے سے کچھ شواہد ملے کہ جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو انہوں نے کچھ سیاسی شخصیات اور صحافیوں کو قتل کرانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں باقاعدہ کچھ ثبوت بھی حاصل کئے گئے ہیں۔
حامد میر نے کہا کہ حکومت کو تھوڑے دن پہلے ہی ان کے بارے میں پتا چلا کہ وہ ابھی بھی پاکستان تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
سینئر صحافی کے مطابق اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے اپنی پارٹی قیادت کو شکایت بھی کی کہ جنرل فیض ہم سے رابطہ کرکے ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کیا کریں، جس پر انہیں کہا گیا کہ آپ کو ان کی بات سننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ بات حکومت تک پہنچ گئی اور اس پر وزیراعظم شہباز شریف نے تحقیقات کا حکم دیا۔