ویب ڈیسک:جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، صحافیوں غریدہ فاروقی، عمار سولنگی اور حسن ایوب کو نوٹس جاری کردیے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے توہینِ عدالت کیس کی سماعت کی۔جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس ثمن رفعت امتیاز بینچ میں شامل ہیں۔جسٹس طارق محمود جہانگیری فل کورٹ بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب! ایسے نہیں چلے گا، ہم جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف اس کمپین کو برداشت نہیں کریں گے، پیمرا، پی ٹی اے اور ایف آئی اے کی کیا ذمے داری ہے؟ کیا انہیں نظر نہیں آ رہا؟ ہم نے پہلے بھی ایکشن لیا، کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا، جو بھی اس میں ملوث نکلا اس کے خلاف کارروائی ہونی ہے، جس نے درخواست دینی ہے جائے درخواست دے کسی کو روک نہیں رہے، آپ حکومت کے نمائندے ہیں اس لیے آپ کو بلایا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ججز کےخلاف مہم چلی حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا، وزیرِ قانون اور اٹارنی جنرل نے کوئی بات نہیں کی، اس کا مطلب ہے کہ آپ اس کی توثیق کر رہے ہیں۔
جو جسٹس طارق جہانگیری کیخلاف مہم میں ملوث ہو گا اپنی گرمیاں اڈیالہ جیل میں گزارے گا
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ اب ہم حکومت اور پیمرا کو بتائیں گے کہ ان کی کیا ذمہ داری ہے، ان کو اب ہم بتائیں گے کہ کیا کرنا ہے، اب ججز ٹویٹ کریں کہ میری ڈگری صحیح ہے یا نہیں؟ پورے نیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا پر چل رہا ہے،یہ ادارہ جاتی رسپانس ہے، جو اس میں ملوث ہو گا اپنی گرمیاں اڈیالہ جیل میں گزارے گا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ تاثر جا رہا ہے کہ حکومت اس کے پیچھے ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ احتساب سے گھبرانے والے نہیں لیکن احتساب کے نام پر جاری مہم کو برداشت نہیں کریں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیمرا، پی ٹی اے، ڈی جی ایف آئی اے، غریدہ فاروقی، عمار سولنگی اور حسن ایوب کو نوٹس جاری کر دیئے۔
عدالتِ عالیہ نے کیس کی سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کر دی۔