مری: (ویب ڈیسک) پاکستان کے تفریحی مقام مری میں سیاحوں کی ہلاکتوں نے پوری قوم کو غمزدہ کر دیا ہے۔ اب بھی ہزاروں کی تعداد میں بچوں اور خواتین سمیت سیاح راستوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جن کو بچانے کیلئے ہنگامی ریسکیو آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ حادثہ ایک دم نہیں ہوا۔ سکولوں میں چھٹیوں کے باعث ملک بھر سے بڑی تعداد میں سیاحوں نے مری کا رخ کر لیا اور ہر گزرتے دن سیاحوں کی تعداد مری میں بڑھتی چلی گئی۔ تاہم وہ یہ بات بھول گئے تھے کہ گذشتہ ہفتے ہی محکمہ موسمیات نے مری میں کئی روز تک جاری رہنے والے برفانی طوفان کی پیشگوئی کی تھی۔ اس دوران انتظامیہ اور حکومت نے لوگوں کو مری جانے سے روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے بلکہ 5 جنوری کو تو وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اس کو اچھی خبر کے طور پر پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’مری میں ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں، ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کے کرائے کئی گنا اوپر چلے گئے ہیں، سیاحت میں یہ اضافہ عام آدمی کی خوشحالی اور آمدنی میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے اس سال سو بڑی کمپنیوں نے 929 ارب روپے منافع کمایا تمام بڑے میڈیا گروپس 33 سے 40 فیصد منافع میں ہیں۔‘ مری انتظامیہ کے مطابق مری میں صرف 4 ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش ہے۔ جب اتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں مری میں برف کے موسم میں آئیں تو مسئلہ ہونا ہی تھا۔ پھر مری سے گلیات اور مظفرآباد کے راستے مقامی آبادی بھی گزرتی ہے جس کی وجہ سے سڑک پر ٹریفک بڑھنا یقینی امر ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق جمعے کو یہ معاملہ شدید خراب ہونا شروع ہوا جب دن 12 بجے سے شروع ہوتی شدید برفباری نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا اور ہفتے کی صبح پانچ بجے تک جاری رہی۔ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب برف کا شدید طوفان آیا۔ مقامی شہریوں کے مطابق جمعہ کی رات اتنی شدت سے برفباری ہوئی جیسے تیز آندھی آتی ہے اور مقامی لوگوں نے بھی ایسی شدید تیز برفباری مدتوں سے نہیں دیکھی تھی۔ جمعہ کی شام کو ہی انتظامیہ کو معاملہ کی سنگینی کا احساس ہوا اور مری جانے کے راستے بند کر دیے گئے مگر اس وقت تک تاخیر ہو چکی تھی کیونکہ مری میں جمعے کی شام تک انتظامیہ کے مطابق ایک لاکھ 30 ہزار گاڑیاں داخل ہو چکی تھیں۔ اتنے شدید موسم میں گاڑیوں کی نقل وحرکت بھی رک گئی اور کئی مقامات پر درخت بھی گر گئے۔ شام آٹھ بجے بجلی بھی غائب ہو گئی۔ مری میں جھیکا گلی وہ چوک ہے جہاں سے کشمیر کی طرف جانے والی گاڑیاں بھی گزرتی ہیں اور بھوربن اور نتھیا گلی کی طرف بھی جانے کا راستہ ہے۔ وہاں موسم بھی زیادہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ جھیکا گلی میں ٹریفک جام ہوئی اور راستے میں درخت بھی گر گئے جس کے بعد ٹریفک جام ہو گئی۔ جھیکا گلی سے کلڈنہ تک تنگ روڈ پر سب سے زیادہ برفباری بھی ہوئی اور گاڑیاں بھی متاثر ہوئیں۔ دوسری طرف ٹریفک جام کے باعث برف ہٹانے والی مشینیں بھی راستہ صاف نہ کر سکیں جس کے باعث لوگ اپنی گاڑیوں میں ہی شدید موسم میں رات گزارنے پر مجبور ہوئے۔ اس دوران کئی لوگوں نے برفانی طوفان سے بچنے کے لیے گاڑیوں میں ہیٹر آن کر کے شیشے بند کر دیے تاہم اس سے آکسیجن کی کمی پیدا ہوئی اور متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔