برکس سربراہی اجلاس شروع،32 ممالک شریک،سب نظریں "شی پیوٹن" ملاقات پر

برکس سربراہی اجلاس شروع،32 ممالک شریک،سب نظریں
کیپشن: برکس سربراہی اجلاس کا آج سے آغاز، 32 ممالک کے وفود شریک ہوں گے

ویب ڈیسک:روس اپنے معروف شہر کازان میں منگل کے روز سے برکس کے توسیعی سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ صدر ولادیمیر پوٹن نے حال ہی میں توسیع شدہ برکس گروپ میں بات چیت کے لیے کئی عالمی رہنماؤں کو کازان مدعو کیا ہے۔ یہ سربراہی کانفرنس تین دن تک جاری رہے گی۔
تفصیلات کے مطابق برکس برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ جیسے پانچ ممالک کا مخفف ہے۔ اس گروپ نے سن 2023 کے اپنے سربراہی اجلاس میں مزید ممالک کو بھی گروپ میں شامل کرنے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ارجینٹینا، ایتھوپیا، مصر، ایران، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی، تاہم ارجنٹائن کے صدر جیویئر میلی نے الیکشن جیتنے کے بعد یہ کہتے ہوئے اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا کہ وہ مغربی ممالک کے حامی راستے کو زیادہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
کریملن کو امید ہے کہ کازان میں ہونے والی اس میٹنگ سے یہ واضح طور پر عیاں ہو جائے گا کہ یوکرین پر حملے کے سبب روس کی سیاسی تنہائی نیٹو کی سرحدوں سے زیادہ دور تک نہیں پھیل سکی ہے۔
یوکرین کی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش پر اس بات کے لیے تنقید کی ہے کہ انہوں نے کازان میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے بارے میں منصوبہ بنایا ہے۔
واضح رہے کہ روس یوکرین جنگ کے خاتمے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے حال ہی میں کییف نے سوئٹزرلینڈ میں سربراہی اجلاس کا انعقاد کیا تھا، جس میں گوٹیرش شامل نہیں ہوئے تھے۔
یوکرین کی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے ایک آن لائن بیان میں لکھا، "اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے پہلے عالمی امن اجلاس میں یوکرین کی دعوت کو مسترد کر دیا۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "تاہم انہوں نے جنگی مجرم پوٹن کی طرف سے کازان کی دعوت کو قبول کر لیا۔ یہ ایک غلط انتخاب ہے جو امن کے مقصد کو آگے نہیں بڑھاتا۔ اس سے صرف اقوام متحدہ کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔"
تاہم ابھی تک یہ بات پوری طرح سے واضح نہیں ہے کہ آیا گوٹیرش کازان اجلاس میں شرکت کریں گے یا نہیں۔

یہ گروپ کتنی اہمیت کا حامل ہے؟

ساڑھے تین ارب افراد پر مشتمل مجموعی آبادی کے برکس ممالک نے حالیہ برسوں میں عالمی سیاسی اور معاشی منظر نامے پر اہمیت حاصل کرلی ہے ، ان ممالک کا عالمی معیشت میں حصہ 28 فیصد ہے، جبکہ ان کی معیشت 28.5 کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔

عالمی بینک کے مطابق چین معاشی اعتبار سے برکس ممالک کا سب سے بڑا رکن ہے، جس کی معیشت 17.96 کھرب ڈالرز ہے، جب کہ انڈیا اس سلسلے میں 3.39 کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ دوسرا بڑا رکن ہے۔

معیشت کے حجم کے اعتبار سے روس برکس کا تیسرا بڑا ملک ہے، جس کی معیشت 2.24 کھرب ڈالرز ہے، جب کہ 1.92 کھرب ڈالر کی معیشتوں کے ساتھ برازیل اور سعودی عرب چوتھے نمبر پر ہیں۔

ایک امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے مطابق برکس ممالک کے پاس اقوام متحدہ کے مرکزی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) میں ووٹنگ کے حقوق کا صرف 15 فیصد ہے۔

برکس گروپ کیا ہے؟

میں برازیل، روس، انڈیا اور چین نے ترقی پذیر ممالک کی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس کا مخفف ’برک‘ تھا، سنہ 2010 میں جنوبی افریقہ اس اتحاد میں شامل ہوا، تو یہ نام ’برکس‘ ہو گیا۔

اس تنظیم کا مقصد دنیا کے سب سے اہم ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور ترقی یافتہ مغربی ممالک کی سیاسی اور معاشی طاقت کو چیلنج کرنا تھا۔

سنہ 2014 میں برکس ممالک نے 250 ارب ڈالر کے فنڈز کے ساتھ نیو ڈیولپمنٹ بینک (این بی ڈی) قائم کیا تاکہ ابھرتی ہوئی اقوام کو ترقی کے لیے قرض دیا جا سکے۔

Watch Live Public News