افغان حکام نے زلزلے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ زلزلے سے متاثرہ علاقے میں موجود حکیم اللہ نامی شہری کا خبر رساں اداے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ہم اسلامی امارت اور پورے ملک کے لوگوں سے کہتے ہیں کہ آگے آئیں اور ہماری مدد کریں،ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے ، یہاں تک کہ رہنے کے لیے خیمہ تک نہیں ہے۔پکتیکا صوبے کے رہائشی عتیق اللہ بہرام نے کا کہنا تھا کہ گیان میں 30 سے زائد دیہات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، کئی خاندان ایسے ہیں جن میں کوئی فرد زندہ نہیں بچا ہے۔ حکام کے مطابق زخمیوں تک پہنچنے اور فوری طبی سامان اور خوراک کی فراہمی کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکام کے مطابق زلزے میں 1,800 گھر تباہ ہو چکے ہیں۔ سپیرا ضلع کے سربراہ سلطان محمود نے غیر ملکی میڈیا کوبتایا کہ علاقے میں 29 افراد ہلاک، 42 زخمی اور 500 گھر تباہ ہو گئے ہیں، سب سے زیادہ نقصان افغان دبئی کے دور افتادہ گاؤں کو ہوا ہے۔ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں موجود عینی شاہدین ایک سنگین صورتحال بیان کرتے ہیں۔ وہاں موجود ایک صحافی کا کہنا تھا کہ ’آپ جس گلی میں بھی جاتے ہیں آپ کو وہاں لوگ اپنے پیاروں کی موت کا ماتم کرتے سنائی دیتے ہیں۔‘ طالبان حکومت نے بین الاقوامی امداد کی اپیل کی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال اگست میں طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد بیشتر امدادی تنظیمیں ملک سے باہر نکل گئی تھیں اور کئی حکومتوں نے افغانستان کے بینکنگ سیکٹر پر پابندیاں عائد کرکے اربوں ڈالر کی امداد روک لی تھی۔ وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے پابندیوں کے باوجود حکومت نے اپنی استعداد کے مطابق جو کچھ کیا وہ کیا اور افغان ہلال احمر نے فوری طور پر ترک ہلال احمر اور دیگر ایجنسیوں کے ساتھ علاقے میں ہنگامی امداد روانہ کر دی ہے . طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر لکھا کہ پاکستان سے خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کے آٹھ ٹرک پکتیکا پہنچ گئے۔ انہوں نے جمعرات کو یہ بھی کہا کہ انسانی امداد کے دو طیارے ایران سے اور ایک قطر سے پہنچے ہیں۔ افغانستان میں نارویجن ریفیوجی کونسل (این آر سی) کے کنٹری ڈائریکٹر نیل ٹرنر نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان حکام نے انسانی ہمدردی کی ایجنسیوں کو متاثرہ علاقوں تک مکمل رسائی دی ہے۔ تاہم، افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نائب خصوصی نمائندے رمیز الکبروف کے مطابق، طالبان نے باضابطہ طور پر اقوام متحدہ سے بین الاقوامی سرچ اینڈ ریسیکیو ٹیموں کو متحرک کرنے یا پڑوسی ممالک سے ساز و سامان حاصل کرنے کی درخواست نہیں کی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ بہت سے بین الاقوامی امدادی ادارے بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے سے محتاط ہیں، جب کہ دیگر گزشتہ سال اگست میں طالبان کے قبضے کے بعد مکمل طور پر افغانستان چھوڑ چکے ہیں۔This little angel is the only remaining alive member of her family, locals couldn’t find any other member of her family. There r many houses levelled to the ground due to landslide & people remained stuck under rubble and in outlying areas.
— Rashid Khan (@rashidkhan_19) June 23, 2022
PLZ Donate https://t.co/08jToN4YAC pic.twitter.com/7bmY454KuZ
غیر ملکی میڈیا کے مطابق افغان حکام زلزلے کی زد میں آنے والے دور دراز علاقے تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جس میں کم از کم 1,000 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ ناقص مواصلات اور مناسب سڑکوں کی کمی کی وجہ سے امداد کی کوششوں میں رکاوٹ آ رہی ہے۔ طالبان رہنما محمد اسماعیل معاویہ نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ہم علاقے تک نہیں پہنچ سکتے، نیٹ ورک بہت کمزور ہیں، ہم اپ ڈیٹس حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔میڈیا رپورٹس کےمطابق افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیکا میں آنے والے 6.1 شدت کے زلزلے کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ 1500 سے زائد زخمی ہیں۔