جسٹس بابر کیخلاف مہم کیس،وزارت دفاع کی رپورٹ مسترد، دوبارہ جمع کرانے کا حکم

جسٹس بابر کیخلاف مہم کیس،وزارت دفاع کی رپورٹ مسترد، دوبارہ جمع کرانے کا حکم
کیپشن: جسٹس بابر ستار کیخلاف سوشل میڈیا مہم، توہین عدالت کیس کی سماعت آج ہوگی

ویب ڈیسک:اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر کے خلاف مہم کیس میں وزارت دفاع کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے دوبارہ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت دی کہ جنہوں نے سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا ان کا پتہ لگائیں۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں 3 رکنی لارجر بنچ نے مقدمے کی سماعت کی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان بنچ میں شامل ہیں، اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت کی کہ جنہوں نے سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا ان کا پتہ لگائیں، جو اصل لوگ ہیں ان کا تعین کریں، ہم آرڈر کر دیں گے آپ اصل ذمہ داروں کا تعین کریں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ مہم کا آغاز کرنے والے لوگوں کے خلاف تحقیقات کریں، آپ نے ان کا تعین کرنا ہے جنہوں نے جج کی فیملی کا ڈیٹا سب سے پہلے شیئر کیا، ہم اس حوالے سے ایک مناسب آرڈر بھی جاری کر دیں گے۔

جسٹس سردار اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ایک ہی روز میں تین مختلف مہم چلائی گئیں؟ اگر ملک دشمنوں کی جانب سے فائیو جی وار شروع کر دی جائے، اگر ملک دشمن یہ الزام عائد کر دیں کہ آرمی چیف، صدر مملکت توہین مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان الزامات کے نتیجے میں جلاؤ گھیراؤ ہو، بلڈنگز کو جلا دیا جائے تو کیا آئی ایس آئی ان ملک دشمن عناصر کو ٹریس کر سکے گی یا نہیں؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایک ہاں اور نا کا سوال ہے، بتائیں آپ کی استعداد ہے کہ نہیں؟

جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے پاس فائیو جی وار فیئر کے خلاف کوئی سافٹ ویئر موجود نہیں؟ آپ بتائیں کہ فائیو جی وار فیئر کا مقابلہ کرنے کیلئے آپ کے پاس کیا وسائل موجود ہیں؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ قومی سلامتی کے معاملات خفیہ ہے تو سربمہر لفافے میں جمع کرا دیں۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ایف آئی اے حکام کو کہا کہ آپ نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے، ایف آئی اے نے اس رپورٹ سے بہت بہتر رپورٹ جمع کرائی ہے ، ہم سپیریئر ایجنسی سے ویسا ہی کام کی توقع کر رہے تھے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے نے واقعی بہت کام کیا ہے۔

عدالت نے مزید استفسار کیا کہ کیا گرین کارڈ والے کو امریکی شہری کہیں گے؟ امیگریشن حکام نے بتایا کہ وہ امریکی شہری نہیں ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جج کی انفارمیشن جو صرف ایف آئی اے کے پاس ہو سکتی تھی وہ کسی سسٹم سے نکال کر اپلوڈ ہوئی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹریول دستاویز پبلک ہوئی ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے سسٹم سے دستاویزات نکالے جانے پر ڈی جی امیگریشن ڈیپارٹمنٹ سے رپورٹ طلب کر لی۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ سسٹم میں معزز جج کی یہ انفارمیشن کتنی بار چیک کی گئی؟ آپ نے بتانا ہے کہ یہ انفارمیشن کیسے لیک ہوئی۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی امیگریشن کہتے ہیں کہ یہ انفارمیشن ہمارے پاس نہیں ہوتی۔

امیگریشن حکام نے بتایا کہ ہماری تکنیکی ٹیم آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کر دے گی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ انفارمیشن کیلئے لاگ ان کیا گیا ہوگا وہ آپ نے بتانا ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے آئی ایس آئی سے دوبارہ رپورٹ طلب کر لی۔

جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اسٹینڈ لے لیا ہے کہ پی آر کارڈ ہونے کا مطلب امریکا کی شہریت نہیں ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی آر کارڈ ہونے کا مطلب شہریت نہیں ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت تین ہفتوں تک ملتوی کر دی اور ریمارکس دیئے کہ آئندہ سماعت کی تاریخ تحریری حکمنامہ میں ہوگی۔

Watch Live Public News