ویب ڈیسک : جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے صدر یون سک یول کے مواخذے کے حق میں اکثریت سے تحریک قبول کرلی صدر یون نے مارشل لاء لگانے کاحکم دیا تھا۔
ہفتے کو جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ میں 204 ارکان نے تحریک کے حق میں جب کہ 85 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ صدر کی اپنی جماعت ’پیپل پاور پارٹی‘ (پی پی پی) کے کچھ ارکان نے بھی اُن کے خلاف ووٹ دیا۔ مواخذے کی کامیابی کے بعد صدر کو اپنے اختیارات استعمال کرنے اور فرائضِ منصبی سے روک دیا گیا ہے۔ تحریک کی کامیابی کی ایک نقل صدر جب کہ دوسری آئینی عدالت کو بھیج دی گئی ہے۔
جنوبی کوریا کی آئینی عدالت 180 روز کے اندر صدر کو اُن کے عہدے سے ہٹانے یا بحال کرنے کا حتمی فیصلہ کرے گی۔ اگر اُنہیں عہدے سے ہٹایا گیا تو 60 روز کے اندر ملک میں نئے صدارتی انتخابات ہوں گے۔
ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں یہ دوسرا موقع ہے کہ جنوبی کوریا کے کسی رہنما کو اپنے عہدے پر مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ یون کو اپنے اختیارات کے استعمال سے اس وقت تک معطل کر دیا گیا ہے جب تک کہ ملک کی آئینی عدالت کے ذریعے حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا۔
یادرہے 3 دسمبر کو صدریون نے مارشل لاء کا اعلان کرنے کے بعد فوجیوں کو پارلیمنٹ میں بھیج دیا تھا تاہم اسکے بعد قانون کی حکمرانی کے لئے ایک جنگ کا آغاز ہوا ک جب پارلیمنیٹرینز اور عوام نے عمارت میں داخل ہونے کےلئے فوجیوں کا مقابلہ کیا۔
یادرہےحزب اختلاف کی جماعتوں نے ایک ہفتہ قبل ان کا مواخذہ کرنے کی کوشش کی – لیکن یون اس وقت بچ گئے جب ان کی حکمران پیپلز پاور پارٹی کے ارکان نے ووٹ کا بائیکاٹ کیا، انہیں امید تھی کہ صدر اس کی بجائے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو جائیں گے۔
صدریون نے جمعرات کو تقریر کرتے ہوئے جس میں اس نے اپنے مارشل لا کے فیصلے کا دفاع کیا، اپوزیشن پر طنز کیا، دعویٰ کیا کہ وہ ملک کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور "عوام کے ساتھ آخری دم تک لڑنے" کا عزم کیا۔
اس تقریر سے چند لمحے قبل، یون کی پارٹی کے رہنما نے صدر کے لیے اپنی حمایت واپس لے لی اور مواخذے کو "جمہوریت کے دفاع کا واحد راستہ" قرار دیتے ہوئے، قانون سازوں کو اپنے ضمیر کے ساتھ ووٹ دینے کی ہدایت کی۔
ہفتے کے روز ہزاروں مظاہرین سیئول میں جمع ہوئے، جنہوں نے سخت سردی میں یون سے ووٹنگ سے قبل مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، ووٹنگ کے دوران سینکڑوں افراد پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر موجود تھے۔