بھٹو پھانسی ریفرنس، شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی پر چڑھایا گیا ، تفصیلی رائے جاری

بھٹو پھانسی ریفرنس، شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی پر چڑھایا گیا ، تفصیلی رائے جاری

(ویب ڈیسک )   سپریم کورٹ نے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر تفصیلی رائے جاری کردی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 48 صفحات پر مشتمل رائے تحریر کی، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ تحریری رائے میں اضافی نوٹ دیں گے۔

تفصیلی رائے میں کہا گیا ہے کہ شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی چڑھایا گیا، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوا، اگر بھٹو کو رہا کر دیا جاتا تو وہ ضیاء الحق کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا سکتے تھے، ملک اور اس کی عدالتیں اس وقت مارشل لاء کی قیدی تھیں، آمر کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے جج کی عدالتیں پھر عوام کی عدالتیں نہیں رہتیں۔

تفصیلی رائے کے مطابق  جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی صدارتی ریفرنس پر رائے سے اتفاق کرتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اضافی نوٹ لکھیں گے، تفصیلی تحریری رائے میں جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک کی معاونت پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔

تفصیلی رائے میں کہا گیا ہے کہ   صدارتی ریفرنس 2011 میں آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت دائر کیا گیا تھا، صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے 5 سوالات پر رائے مانگی گئی تھی،   سپریم کورٹ نے 12 نومبر 2012 کو صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت کی تھی،  یہ صدارتی ریفرنس 11سال تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا، صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے تمام 9 جج اس دوران ریٹائر ہوگئے۔

تفصیلی تحریری رائے کے مطابق   12دسمبر 2023 کو صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے دوبارہ مقرر کیا گیا، 11 برس کے دوران متعدد صدارتی ریفرنس آئے جن پر سماعت کی گئی،  جسٹس سردار طارق مسعود ریٹائرمنٹ سے پہلے صدارتی ریفرنس پر رائے پر دستخط کر چکے تھے، جج کے دستخط کے بعد جسٹس سردار طارق مسعود بعد ریٹائرمنٹ تفصیلی وجوہات بعد میں لکھ سکتے ہیں۔

تفصیلی  تحریری رائے میں کہا گیا ہے کہ  18 ستمبر 1977 کو حتمی چالان میں مسعود محمود، میاں محمد عباس کو سلطانی گواہ ظاہر کیا گیا، فرد جرم 11 اکتوبر 1977 کو عائد کی گئی، ملزمان نے فرد جرم سے انکار کیا، 11اکتوبر 1977 سے 25 فروری 1978 تک ہائیکورٹ نے بطور ٹرائل کورٹ مقدمہ سنا، استغاثہ کے41 گواہوں اور صفائی کے صرف 4 گواہوں کی شہادتیں قلم بند کی گئیں، 2 مارچ 1978 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 18مارچ 1978 کو سنایا گیا،  بھٹو کو اعانت جرم، قتل، اقدام قتل، قتل کی سازش کے تحت سزائے موت سمیت 12سال کی سزا سنائی گئی۔

 تفصیلی تحریری رائے کے مطابق  بھٹو نے سزا کےخلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے 3-4 کی اکثریت سے بھٹو کی اپیل مسترد کردی، بھٹو کی نظر ثانی اپیل 7رکنی بینچ نے متفقہ طور پر مسترد کردی، بھٹو کے ڈیتھ وارنٹ پر جسٹس مشتاق حسین نے دستخط کیے جو چیف جسٹس لاہور بن چکے تھے۔

Watch Live Public News