لاہور: (ویب ڈیسک) سوشل میڈیا پر صدارتی نظام کے مخالف اور حامی آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ صدارتی نظام کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ڈکٹیٹرشپ کا نظام ہے جو سابق آمروں کا نافذ کردہ تھا۔ جبکہ دوسری جانب اس کے حامی اس سسٹم کے فوائد گنوا رہے ہیں۔ بہرحال پاکستانی ٹویٹر پر #ملک_کی_بقا_صدارتی_نظام ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔ صدارتی نظام کے حق میں بات کرنے والے صارفین کا ماننا ہے کہ پارلیمانی سسٹم انتہائی فرسودہ ہو چکا ہے۔ اس میں حکومت کی تشکیل کیلئے لوگوں کو خریدا جاتا ہے۔ نہ پاکستان میں انصاف نام کی کوئی چیز ہے اور نہ ہی عدالتیں مقدمات کے فیصلے کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتیں بھی عوام کیلئے کچھ کرنے کی بجائے دیگر سیاسی پارٹیز کے ہاتھ بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔ https://twitter.com/WaqasAn97299297/status/1483345350798815232?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1483345350798815232%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Furdu.nayadaur.tv%2Fnews%2F77644%2Ftwitter-top-trend-presidential-system-pakistan%2F حامیوں کا مزید ہے صدارتی سسٹم ہی دراصل اسلامی نظام حکومت کے نزدیک تر ہے۔ صارفین اس حوالے سے امریکا کی مثالیں پیش کر رہے ہیں کہ امریکا آج اگر ترقی یافتہ ملک ہے تو اس کی بنیادی وجہ صرف صدارتی نظام ہے۔ کیونکہ صدر اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوتا ہے۔ اس کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بعض صارفین نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اس ملک میں جمہوری نہیں بلکہ صدارتی نظام چاہتے تھے۔ اس حوالے سے ان کا ایک خط بھی تھا جسے چھپا لیا گیا ہے۔ قائداعظم صدارتی نظام حکومت کے خواہشمند تھے۔ انہوں نے 10 جولائی 1947ء کو کھل کر اس کا اظہار بھی کیا تھا۔ ایک صارف کا کہنا تھا کہ پارلیمانی سسٹم میں وزیراعظم صرف منتخب اراکین کو ہی وزارتیں دے سکتا ہے جو اپنے شعبے کے ماہر نہیں بلکہ سیاستدان ہوتے ہیں جبکہ صدارتی نظام حکومت میں ایسی کوئی پابندی یا شرط ہی نہیں ہے۔ اس میں ماہرین کو وزارتیں دی جا سکتی ہیں۔ https://twitter.com/AsadMajeed_01/status/1483341691453165569?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1483341691453165569%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Furdu.nayadaur.tv%2Fnews%2F77644%2Ftwitter-top-trend-presidential-system-pakistan%2F ایک سوشل میڈیا صارف نے معروف عالم دین اور سکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انگریزوں سے وراثت میں ملی پارلیمانی نظام کی لعنت کو چھوڑ کر صدارتی سسٹم کا نفاذ کر دیا جائے کیونکہ یہ نظام خلافت کے قریب ترین ہے۔ ترقی یافتہ قوموں نے ہم سے ہی صدارتی سسٹم لیا تھا۔امریکی صدارتی نظام بھی دراصل خلافت سے مستعار لیا گیا تھا جس میں مواخذہ بھی شامل ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جیسے ہی مواخذے کی بات ہوئی تو نکسن بھاگ کھڑا ہوا۔ دوسری جانب صدارتی نظام حکومت کے مخالفین نے کہا کہ صدارتی نظام آمروں کا یہ آمروں نافذ کردہ ہے۔ یحییٰ خان کے دور میں پاکستان دو لخت ہوا، ضیاء الحق کے دور میں ہمیں فرقہ پرستی، افغان مہاجرین کا تحفہ ملا اور مشرف دور میں طالبان پاکستان پر نازل ہوئے۔ مخالفین کا کہنا تھا کہ صدارتی نظام میں پاکستان ٹوٹا، سیاچن الگ ہوا، سوات پر طالبان کا قبضہ ہوا اور پاکستان پر دہشتگردی کا ٹھپہ لگا۔ صدارتی نظام ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ پرویز مشرف اور آصف زرداری صدارتی نظام حکومت میں جو کر کے گئے ہیں سب کے سامنے ہے۔ بعض کا کہنا تھا کہ پارلیمانی اور صدارتی نظام ایک ہی کھوٹے سکے کے دو رخ ہیں۔ بس یہ ایک اور ٹرک کی بتی ہے جسکے پیچھے کچھ سادہ لوح لوگوں کو لگایا جا رہا ہے۔ https://twitter.com/PAK_All_Rounder/status/1483332605613326337?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1483332605613326337%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Furdu.nayadaur.tv%2Fnews%2F77644%2Ftwitter-top-trend-presidential-system-pakistan%2F ایک صارف نے لکھا کہ گدلا پانی جگ میں رکھیں یا بالٹی میں،دودھ نہیں بنے گا۔ عمران خان تمام تر دستیاب غیرمنتخب افراد آزما چکے جو صدارتی نظام کی واحد خوبی ہے۔ پنجرہ بدلنے سے کوا مور نہیں بنے گا۔ بہتری کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کم کرنا ہو گی یا کم از کم ٹیلنٹڈ لوگ سلیکٹ کرنا ہوں گے۔ صارف بلال احمد خان نے لکھا کہ خان صاحب آپ کے تمام وزراء اپوزیشن کے پیچھے پڑیں ہیں جبکہ ان کو اپنی وزارت کی کارکردگی کو اجاگر کرنا چاہیے۔ عوام نے کارکردگی پر ووٹ دینا ہے ، اپوزیشن پر بولنے پر نہیں۔ ظفر علی نامی صارف کا کہنا تھا کہ صدارتی نظام کیلئے لڑنے والے مجاہدین بتا سکتے ہیں کہ پہلا صدر کون ہوگا؟ اگر اپ خان سے ہی امید لگائے بیٹھے ہیں تو اپ لوگ دنیا کے انتہائی بے وقوف لوگ ہونگے۔