سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کےکیس پر فیصلہ محفوظ

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کےکیس پر فیصلہ محفوظ
کیپشن: سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کےکیس پر فیصلہ محفوظ

ویب ڈیسک: سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے سے متعلق درخواستوں پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے کیس کی سماعت کی، پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن وکیل حامد خان، سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر،   پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہر علی، مسلم لیگ (ن) کے وکیل و سابق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ ، فروغ نسیم، فاروق ایچ نائیک اور کامران مرتضیٰ الیکشن کمیشن پہنچے، سنی اتحادکونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا اور پی ٹی آئی وومن ونگ کی صدر کنول شوزب بھی الیکشن کمیشن میں موجود ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر کے دلائل

الیکشن کمیشن میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کل الیکشن کمیشن نے حکمنامہ جاری کیا، آپ نے ساری پارٹیوں کو نوٹس کرنے کا فیصلہ لیا، شام کو اگر حکمنامہ جاری ہو تو پارٹیز کیسے تیاری کرکے صبح آسکتی ہیں؟ یہ ایک بے معنی مشق ہوگی۔

چیف الیکشن کمشنرنے کہاکہ ہم نے صرف متعلقہ پارٹیز کو بلایا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ ایم کیو ایم سیٹیں چاہتی ہیں لیکن انہوں نے درخواست میں سیٹوں کی بات نہیں کی، وہ ایک الگ درخواست دیں تاکہ مجھے پتہ ہو کہ وہ چاہتے کیا ہیں، حقیقت یہ ہے کہ میری درخواست تب لگی جب یہ درخواستیں آئیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کو پتہ ہونا چاہئیے کہ آپ کی درخواست پر تین میٹنگز ہوئیں، سماعت کی ضرورت تب آتی ہے جب ذہن میں ابہام ہو ۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن سماعت تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ آزاد امیدوار اتنی بڑی تعداد میں جیتے۔

ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ پاکستان میں بہت سی چیزیں پہلی بار ہوئی ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ قومی اسمبلی میں 86آزاد اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، اسی طرح سندھ میں 9،پنجاب میں107اور خیبرپختونخوا کے90ایم پی ایز نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، سپریم کورٹ نے خدشے کا اظہار کیا کہ انتخابی نشان نہیں ہوگا تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔

  الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ وہ پارٹی جوائن کریں گے تو نشستیں مل جائیں گے۔

چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ کیا یہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں یہ بات سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود نہیں ہے۔

 چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کے وکیل نے بھی یہ کہا تھا کہ انتخابی نشان نہیں ہوگا تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، اگر ریکارڈنگز پہ جانا ہے تو بہت کچھ سننا پڑے گا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آزاد امیدواروں نے کے پی میں بہت زیادہ سیٹیں حاصل کیں ، اعتراض ہے کہ سنی اتحاد کونسل کسی اسمبلی میں نہیں۔

ممبر اکرام اللہ نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ پارلیمانی پارٹی نہیں ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انکا اعتراض یہ نہیں ہے، دوسرا اعتراض ہے کہ آپ نے تین دن میں سنی اتحاد جوائن نہیں کیا۔

ممبر کے پی اکرام اللہ نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے کہ تین دن میں کوئی جماعت جوائن کرسکتے ہیں مگر مخصوص نشستوں کے کوٹہ بارے نہیں لکھا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے شق200میں سیاسی جماعت بارے بتایاگیا، سیاسی جماعت کا رجسٹرڈ ہونا لازم ہے، ممبر کے پی اکرام اللہ نے کہاکہ شق201میں لکھا ہے کہ سیاسی جماعت وہ ہے جو انتخابات میں حصہ لے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر آپ کے خیال میں سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں تو کیوں رجسٹرڈ کیا؟۔

ممبر کے پی اکرام اللہ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ابھی ہم نوٹس لیکر سنی اتحاد کونسل کو ڈی لسٹ کردیں۔

بیرسٹر علی ظفرنے کہا کہ ڈی لسٹ کردیں آپکا صوابدیدی اختیار ہے مگر اسکے لئے طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔  آئین کا آرٹیکل 17کہتاہے کہ ہر شہری کا حق ہے کہ وہ سیاسی جماعت بنائے یا شامل ہو، بیرسٹر علی ظفر نے بے نظیر بھٹو کیس کا حوالہ دیا۔ 

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستیں دینا سنی اتحاد کونسل کا حق ہے۔

ممبر نثار درانی نے کہاکہ ‏ سنی اتحاد کونسل نے تو عام انتخابات میں شرکت ہی نہیں کی، ‏کیا سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا  کہ ‏ سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت نہیں ہے،‏آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت بن گئی ہے۔

ممبر اکرام اللہ خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل آذاد ارکان کے بغیر پارلیمانی جماعت بھی نہیں ہے، ان آزاد ارکان کی بنیاد پر سنی اتحاد کونسل کو کیسے مخصوص نشستیں دی جاسکتی ہیں؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ‏ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دی جائیں گی صدارتی الیکشن آنے والے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ صدارتی الیکشن سے مخصوص نشستوں کا کیا تعلق ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ ‏صدارتی الیکشن کا مخصوص فارمولہ ہوتا ہے، ‏آزاد ارکان صدارتی الیکشن میں انتہائی اہم کردار ادا کریں گے۔

ممبر کے پی نے کہا کہ مخصوص نشستیں کس کو ملنی ہیں یہ ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ آزادامیدواروں پر پابندی نہیں کہ کس جماعت کو جوائن کریں کس کو نہیں، بنیادی مقصد کسی بھی حکومت یا اپوزیشن کا بنانے میں معاونت تھا، آئین میں کہیں نہیں ہے کہ کس جماعت میں شمولیت ہوسکتی ہے اور کس میں نہیں، اعتراض تھا سنی اتحاد کونسل منتخب نہیں، دوسرااعتراض ہے کہ آزاد امیدوار شمولیت کربھی لیں تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔

ایک درخواستگزار کا موقف ہےکہ سیاسی جماعت کو پارلیمانی جماعت ہونی ضروری ہے، آئین میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے نہ کہ پارلیمانی جماعت کا، پارلیمانی جماعت اور سیاسی جماعت میں فرق متعلق الگ آرٹیکل ہے، آرٹیکل 63 کے مطابق سیاسی جماعت واضح ہے۔

ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعت چاہے غیر پارلیمانی ہو اگر ممبران شامل ہوگئے تو پارلیمانی بن جائے گی۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جی بالکل ،سیاسی جماعت ممبران کی شمولیت سے پارلیمانی بن سکتی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ میرا موقف یہ ہے کہ آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کیلئے اہل ہے، اس معاملے میں صرف پارٹی کا ذکر ہے پارلیمانی پارٹی کا ذکر نہیں۔

ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی فہرست پارلیمانی پارٹی دےگی یا پارٹی ہیڈ؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ پارٹی سربراہ دے گا۔ الیکشن کمیشن کیس سماعت الیکشن ایکٹ کے شق 4کے مطابق آپکے پاس اختیار ہے کہ اسطرح کی صورتحال میں فیصلہ لے سکے، آپ یہ نشستیں کسی ایسی جماعت کو بھی نہیں دے سکتے جن کو مل چکی ہوں۔ 

ممبر سندھ نے کہاکہ اگر یہ سب آزاد امیدواروں کوئی جماعت جوائن نہیں کرتے پھر ؟

علی ظفر نے جواب دیا کہ اب دوبارہ لسٹ لیکر سکروٹنی کریں گے، اب اگر فہرست دی ہو تو 6 سیٹوں کا کوٹہ مل رہا ہو تو آپ باقی نام مزید مانگیں گے،بلوچستان عوامی پارٹی کی مثال موجود ہے کے پی متعلق انکی لسٹ نہیں تھی، جب انہوں نے سیٹیں لی تو آپ نے انکو مخصوص نشستیں دی۔

کیس میں نیا موڑ

سنی اتحادکونسل کو مخصوص نشستیں دینے سے متعلق کیس میں نیا موڑ آ گیا ، سربراہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستیں لینے سے انکار کردیا۔

چیف الیکشن کمشنر نے سنی اتحاد کونسل کا خط بیرسٹر علی ظفر کو دے کر کہا کہ سربراہ سنی اتحاد کونسل نے 26 فروری کو الیکشن کمیشن کو خط لکھا اور کہا کہ ہم جنرل الیکشن نہیں لڑے نا مخصوص نشستیں چاہیئیں، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں چاہیئیں تو آپ کیوں ان کو مجبور کر رہے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے سنی اتحاد کونسل کے خط سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کو سنی اتحاد کونسل نے ایسے کسی خط کے حوالے سے نہیں بتایا۔

پیپلزپارٹی کی سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کی مخالفت 

پیپلز پارٹی نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کی مخالفت کردی، فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر پہلے سے فہرست نہیں دینی تو مخصوص نشستیں دینا نہیں بنتی، سنی اتحاد کونسل کوئی جنرل نشست جیت کرنہیں آئی، نہ ہی کوئی ترجیحی فہرست جمع کرائی، شق104کے تحت تاریخ گزرنے کے بعد نئی فہرست نہ جمع کرائی جاسکتی ہے نہ تبدیل ہوسکتی ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ  موجود فہرست میں نام ختم ہونے کی صورت میں سیاسی جماعت مزید نام دے سکتی ہے، الیکشن کمیشن اسوقت سنی اتحاد کونسل سے نئی فہرست طلب نہیں کرسکتا۔

مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کے دلائل

الیکشن کمیشن میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں کوئی حصہ نہیں لیا، الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں سے انتخابی ضابطوں پر عملدرآمد بارے خط لکھا، سنی اتحاد کونسل نے جواب دیا کہ انکی جماعت نے کوئی امیدوار کھڑے نہیں کئے،سیکشن 104میں واضح لکھا ہے کہ جوپارٹی انتخابات میں حصہ لے رہی ہو، شق 104میں مخصوص نشستوں کیلئے ترجیحی فہرست کا ہونا لازمی ہے، ایک سیاسی جماعت کو عوام نے مسترد کیاہو تو آزاد اراکین جاکر کیسے مخصوص نشستیں مانگ سکتی ہیں۔

وکیل مسلم لیگ ن نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی تب فہرست دی جاسکتی ہے جب پرانی مکمل ہو جائے، آزاد امیدواروں کو مخصوص نشستیں فراہم نہیں کی جائیں گی ،ا گر پرانی لسٹ میں استعفی یا نااہلی کی صورت میں نئی فہرست دےسکتی ہے، 2018 میں 6 آزاد امیدوار پنجاب اسمبلی میں تھے انکو کوٹہ نہیں دیا گیا، کیونکہ آزاد امیدواروں کو کوٹہ دینے کا قانون نہیں، پنجاب میں 2018 میں آزاد امیدواروں نے مخصوص نشستوں کا کوٹہ بھی نہیں مانگا۔

ممبر کے پی نے کہاکہ اب وہ امیدوار آزاد نہیں رہے وہ سیاسی جماعت میں شامل ہوگئے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ لیکن اب وقت گزر گیا ہے، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق شیڈول بھی جاری کیا، قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آزاد امیدوار اگر زیادہ تعداد میں بھی ہوں تو ان کے لئے قانون تبدیل کیا جائے قانون کے مطابق ہی سیاسی جماعتوں میں مخصوص نشستوں کا کوٹہ تقسیم ہوگا۔

جے یوآئی ف کی بھی سنی اتحاد کونسل کو نشستیں دینے کی مخالفت 

جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) نے بھی سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کی مخالفت کردی۔

جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے الیکشن کمیشن میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے آئین، الیکشن ایکٹ شق 104 اور رولز 92 کو دیکھنا ہے، نشستوں کی پوزیشن سے متعلق آرٹیکل 51 کی شق تین دیکھنا پڑے گا۔

ایم کیوایم پاکستان کےدلائل

ایم کیوایم پاکستان کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل کا آغاز کردیا ، شق 104میں واضح ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت فہرست دے سکتی ہے، اگر کسی جماعت نے مقررہ وقت میں فہرست نہیں دی تو وہ انتخابی سیاسی جماعت نہیں ہوگی، یہ کہتے ہیں کہ شق104آئین سے متصادم ہے، الیکشن کمیشن کو ہی آئین اور اس شق کی تشریح کرنی ہے، شق104ٹو میں امیدواروں کی سکروٹنی کا لکھاہے،جبکہ مقررہ وقت میں کاغذات جمع ہوسکتے ہیں ۔

ممبرپنجاب بابر بھروانہ نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو شق 104کی سب سیکشن کاکیاہوگا ؟ اگر فہرست ختم ہوجائے تو دوبارہ سکروٹنی کیسے ہوگی ؟

بیرسٹر فروغ نے کہا کہ ہماری پارٹی کی ترجیحی فہرست بھی تجاویز کرگئی، دوبارہ سے ریٹرنگ افسر نوٹس کرےگا اور سکروٹنی ہوگی، آپ کایہی کہنا ہے کہ فہرست جمع کرانے کاوقت گزرگیا ۔

فیصلہ محفوظ

فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا۔