پبلک نیوز: روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتی کشیدگی اور جنگی صورتحال کے درمیان اب دنیا کے سامنے ایک اور بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر نیٹو افواج اس جنگ میں کود پڑیں تو روس جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ ڈیلی سٹار کی خبر کے مطابق ایک ماہر نے کہا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے لیے ’جوہری ہتھیاروں کا استعمال‘ ایک آپشن ہو سکتا ہے۔ نیٹو نے یوکرین کو مدد کی پیشکش کی ہے۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان روس یوکرین کے متبادل کے طور پر "جوہری ہتھیاروں" پر غور کر رہا ہے۔ ایک ماہر نے یہ وارننگ دی ہے۔ تجزیہ کار آندرے اوسٹالسکی کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ یورپی ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان انہیں دیے گئے پانچ آپشنز میں سے کون سا استعمال کیا جائے گا۔ ماہر نے تجویز پیش کی کہ منصوبے "جوہری ہتھیاروں کے استعمال" تک جاسکتے ہیں اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کا بہت زیادہ امکان ہے کیونکہ روسی فوجی سرحد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ نیٹو کے ارکان یوکرین کو اپنی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ برطانیہ نے روسی افواج کے خلاف یوکرین کی مسلح افواج کی مدد کے لیے ایک چھوٹی پیادہ تربیتی ٹیم کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔ رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیٹو نے یوکرین اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کی وجہ سے پڑوسی یورپی ممالک جیسے لٹویا، لیتھوانیا، ایسٹونیا اور پولینڈ میں تقریباً 4000 فوجی تعینات کیے ہیں۔ دوسری جانب امریکا نے یوکرین بحران کے حل کے لیے آئندہ پیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا ہے ۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ میں امریکا کی مندوب لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ سے زیادہ روسی فوجی تعینات ہیں اور روس یوکرین کو غیر مستحکم کرنے والی دیگر کارروائیوں میں بھی ملوث ہے، جو بین الاقوامی امن و سلامتی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے لیے واضح خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہم سفار کاری کے ذریعے کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ انہوں نےکہاکہ 15 رکنی سلامتی کونسل کو حقائق کا بغور جائزہ لینا چاہیے اور اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ یوکرین، روس، یورپ کو بنیادی طور پر کیا خطرہ ہے، کیا بین الاقوامی نظام کے اصولوں کے مطابق روس کو یوکرین پر مزید حملہ کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اب اس معاملے پرسلامتی کونسل کی پوری توجہ کی ضرورت ہے اور ہم آئندہ پیر کو براہ راست اور بامقصد بات چیت کے منتظر ہیں ۔