(ویب ڈسک )اینکر پرسن اشفاق ستی کی اہلیہ نومائکا اشفاق نے شوہر کی جانب سے کیے جانے والے وحشیانہ تشدد پر مبنی پوسٹ جاری کرکے اینکر پرسن کو بےنقاب کردیا۔
تفصیلات کے مطابق نومائکا اشفاق نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اے آر وائی نیوز کے ممتاز اینکر اشفاق اسحاق ستی پر وحشیانہ تشدد اور زیادتی کا الزام عائد کیا۔
اشفاق ستی کی اہلیہ نے انسٹاگرام پر مبینہ طور پر اپنے شوہر اشفاق ستی پر وحشیانہ تشدد کا الزام لگاتے ہوئے تصاویر اور ایف آئی آر کی کاپی پوسٹ کی۔
نومائکا نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ میرے پورے جسم، میری پسلیاں، میرے جبڑے اور میرے چہرے پر متعدد زخموں کے ساتھ ساتھ میرے جسم کا ہر حصہ بری طرح زخمی ہے جس کی وجہ میرے شوہر کا مجھ پر کیا جانے والا وحشیانہ تشدد ہے۔
انہوں نے اپنی پوسٹ کے آغاز میں کہا کہ اشفاق ستی 22 جنوری کو والدہ کے گھر سے اپنے گھر لے کر گئے ، انہوں نے انکشاف کیا کہ اسی روز انہیں شوہر کے ہاتھوں کئی گھنٹوں تک مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا گیا، شوہر نے انہیں بالوں سے گھسیٹا، دیواروں سے مارا اور تکیے سے دم گھوٹنے کی بھی کوشش کی۔
نومائکا نے یہ بھی بتایا کہ اشفاق ستی نے انہیں قتل کی دھمکیاں بھی دیں، کہا کہ وہ قتل کر کے لاش غائب کردیں گے۔
متاثرہ خاتون نے اپنی تفصیلی پوسٹ میں کہا کہ انہیں زخمی حالت میں بغیر کسی کھانے پینے کے اشفاق ستی نے گھنٹوں کمرے میں بند رکھا اور ڈیڑھ سال کا بیٹا لے کر چلا گیا۔
نومائکا نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اشفاق ستی اور انکی والدہ سے بھی کئی بار رحم کی التجا کی لیکن سب بے سود رہا۔ آخرکار میں طویل جدوجہد کے بعد وہاں سے کسی طرح نکلنے میں کامیاب ہوگئی اور اس معاملے کو سب کے سامنے لانے کا عہد کیا۔
انہوں نے تشدد کے بعد عباسی شہید اسپتال میں اپنا میڈیکل کروایا اور ایف آئی آر درج کرنے کے لیے بھی انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
نومائکا نے کہا کہ شوہر اشفاق ستی کے مسلسل دباؤ اور میڈیا میں ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پولیس ایف آئی آر درج کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔
سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر نے اپنے ردعمل میں کہا کہ جس معاشرے کا ہم حصہ ہیں وہاں عورت کا اپنے لیے آواز اٹھانا ایک مشکل عمل ہے، نومائکا کے پاس میڈیکل رپورٹ ہونے کے باوجود ایف آئی آر درج کروانےمیں مشکلات کا سامنا کرنا ہمارے احتساب کے نظام کی خرابی ہے۔
It takes tremendous courage in our society for a woman to demand justice and accountability specially when the Police is more interested in forcing a compromise than registering a FIR even after seeing torture like this. Nomaika had to spend 4 hours at PS from 11pm-3am with my… https://t.co/MdG127wpM6
— M. Jibran Nasir PS110 ???????? (@MJibranNasir) January 28, 2024
سابقہ نیوز اینکر رابعہ انعم نے بھی واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور نومائکا کو اور خواتین کو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت دی۔
<blockquote class="twitter-tweet"><p lang="en" dir="ltr">This is horrific, and the perpetrator needs to be held accountable for this brutality. This kind of physical torture is, of course, a crime in Pakistan, and <a href="https://twitter.com/KarachiPolice_?ref_src=twsrc%5Etfw">@KarachiPolice_</a> should forthwith proceed with the registration of FIR.<br> Thank you for fighting the important fight. I have…</p>— Maleeka Ali Bokhari (@MalBokhari) <a href="https://twitter.com/MalBokhari/status/1751828985846132929?ref_src=twsrc%5Etfw">January 29, 2024</a></blockquote> <script async src="https://platform.twitter.com/widgets.js" charset="utf-8"></script>
کراچی پولیس کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ واقعے کی ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے اور مزید تحقیقات جاری ہیں۔