اردو اور بنگالی کی متعلقہ مطابقت کے بارے میں قائد اعظم کا نظریہ واضح طور پر دو عوامل پر مبنی تھا: پہلا، اردو بطور لسانی زبان جنوبی ایشیا کے شمالی حصوں (بشمول ہندوستان کے کچھ حصوں جیسے بہار، یوپی وغیرہ) میں کہیں زیادہ بولی جاتی تھی اور خاص طور پر مغربی پاکستان کے کچھ حصوں میں۔جو ایک کمزور نئی قومی ریاست کے لیے پل کا کام کرسکتی تھی۔دوسرا، ریاست کے مختلف صوبوں کے درمیان باہمی رابطے کے لیے اردو کو بطورزبان فروغ دینا۔ مزید برآں، کراچی کا زیادہ ترقی یافتہ ہونا اور نئے ملک کو آسانی سے چلانے کے لیے کافی انفراسٹرکچر ہونا اس وقت ڈھاکہ کے مقابلے میں زیادہ قابل فہم تھا۔
یہ دعویٰ کہ بنگالیوں کو بااثر سیاسی اور بیوروکریٹک عہدوں سے محروم رکھا گیا تھا وہ بھی غلط ہے کیونکہ قابل ذکر سیاستدان ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں جبکہ بنگال سے تعلق رکھنے والی دیگر افراد نے بھی سیاسی ذمہ داریاں انجام دی ہیں، ان میں خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا، حسین شہید سہروردی، سکندر مرزا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب بنگال سے تعلق رکھتے تھے۔ مزید یہ کہ میرٹ پر نہ ہونے کے باوجود، 1948 سے لیکر 1970 تک مشرقی پاکستان سے بڑی تعداد کو جو تقریبا300 سے بنگالی زائد افسران پر مشتمل تھی کو فوج میں شامل کیا گیا۔ ان افسروں میں میں ایم ایم عالم، سرفراز احمد رفیقی قابل ذکر ہیں ۔
پاک فوج، جس میں پیشہ ورانہ مہارت اور نظم و ضبط کا کلچر ہے، عام شہریوں کے قتل عام میں ملوث نہیں ہے، جیسا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کی کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ پاک فوج نے 1971 کی جنگ بے پناہ چیلنجز اور نقصانات کا سامنا کرنے کے باوجود بہادری اور باوقار طریقے سے لڑی۔ مشرقی پاکستان میں اپنے فوجیوں کی سپلائی اور ری انفورس کرنے میں مغربی پاکستان کو درپیش لاجسٹک مسائل بہت زیادہ تھے،کیونکہ فاصلہ بہت زیادہ تھا اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان میں دشمن بھارتی علاقہ بھی تھا۔
پاکستانی فوجیوں کو تعداد اور فائر پاور دونوں میں دشمن کی برتری کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ اور اس کے حامیوں کی تخریب کاری کا بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ پاک فوج نے بھارتی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جرات اور قربانی کے ساتھ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا دفاع کیا۔ تیس لاکھ بنگالیوں کی نسل کشی کا الزام سراسر مبالغہ آرائی اور حقائق کو مسخ کرنے اور پاک فوج اور پاکستان کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش ہے۔
عوامی لیگ اور بھارت نے’’ آپریشن سرچ لائٹ’’ کو اپنی علیحدگی پسندی کی منصوبہ بندی کے لیے تشکیل دیا، جبکہ شیخ مجیب نے اپنے پیروکاروں کو بنیادی اسٹرکچر کو تباہ کرنے اور ملک کے وسائل کو لوٹنے کے لیے اکسایا، جس کے باعث امن بحال کرنے کے لیے پاک فوج کو مداخلت کرنا پڑی ۔
مزید برآں، تقریباً تین دہائیوں تک، مغربی پریس بھارتی فوجیوں اور باغی ملیشیا مکتی باہنیکی طرف سے کی جانے والی خواتین کی عصمت دری کے بارے میں خاموش رہا۔ پاکستانی فوجیوں کی تعداد بھی بڑھا دی گئی۔ اصل تعداد 34,000 تھی اس کے علاوہ 11,000 پولیس، رینجرز، اسکاؤٹس اور ملیشیا تھے۔ اس سے لڑنے والوں کی کل تعداد 45,000 ہوگئی۔
ایک شائع خط میں، RAW افسر R.K. یادیو نے چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی، پارلیمنٹ، را اور مسلح افواج نے پاکستان کے مشرقی بازو کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے مل کر کام کیا۔ اس کے خط میں اعترافات کی تصدیق بی رامن کی کتاب The Kaoboys of R&AW سے ہوتی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ ''بھارتی پارلیمنٹ نے 31 مارچ 1971 کو بغاوت کی حمایت کے لیے قرارداد منظور کی تھی۔ اندرا گاندھی نے اس وقت کاؤ کے ساتھ یقین دلایا تھا کہ اگر مجیب کو پاکستان پر حکومت کرنے سے روکا گیا تو وہ مشرقی پاکستان کو فوجی جنتا کے چنگل سے آزاد کرائیں گی۔اس کے لیے ’’نہ صرف انٹیلی جنس افسران بلکہ فوجی افسران بھی پاکستان کے اندر تخریب کاری کے لیے کام کرتے ہیں۔‘‘
پاک افواج کی ہلاکتوں، طاقت اور دیگر کئی پہلوؤں کے بارے میں سچائی کو سرمیلا بوس نے اپنی کتاب 'DEAD RECKONING - Memories of the 1971 Bangladesh War' میں اچھی طرح سے بے نقاب کیا ہے۔ بوس کہتے ہیں، 'بہت سے حقائق کو بڑھا چڑھا کر ، من گھڑت، توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ ذمہ دار عہدوں پر بہت سے لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے غیر تائید شدہ دعوے دہرائے تھے۔ کچھ لوگوں کو معلوم ہوا کہ قوم پرستی کے افسانے جھوٹے ہیں لیکن انہوں نے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ مجیب الرحمان کی انتخابی جیت کا مطلب یہ نہیں تھا کہ لوگ پاکستان سے الگ ہونا چاہتے تھے، بلکہ یہ محسوس کرتے تھے کہ وہ حکومت کی طرف سے نظر انداز ہو رہے ہیں تاہم، سبھی بنگالیوں نے مجیب الرحمان کی حمایت نہیں کی، کیونکہ 40 فیصد سے زیادہ آبادی نے ووٹ نہیں دیا۔
انہوں نے بھارتی اور بنگلہ دیشی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں تیس لاکھ بنگالی مارے گئے اور اسے "بہت بڑا جھوٹ" قرار دیا۔ انہوں نے مرنے والوں کی تعداد 50,000 اور 100,000 کے درمیان قرار دیتے ہوئے ، کہا کہ اضافی تعداد کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ ہولوکاسٹ کے معاملے میں تھا۔
امریکی کیریئر ڈپلومیٹ آرچر بلڈ کے مطابق، " مکتی باہنی کے تخریب کاروں کو بھارتی سرزمین پر واقع تربیتی کیمپوں میں تربیت دی گئی جہاں ان کے لئے اسپتال اور ڈپو سمیت دیگر سہولتیں بھی دستیاب تھیں اور محفوظ پناہ گاہ تھی جہاں وہ آرام کر سکتے تھے، خوراک، طبی سامان اور ہتھیار میسر تھے"۔ یاسمین سائکیا کے مطابق مکتی باہنی (خواتین، جنگ اور بنگلہ دیش کی تشکیل، صفحہ 41) نے ہزاروں بہاری خواتین کی عصمت دری اور تشدد کیا ۔
بغاوت کو ہوا دینے میں بھارت کا کردار واضح ہے۔ بھارت نے پاکستان کے امیج کو خراب کرنے کے لیے بہت سی خرافات پھیلائی ہیں۔ ان میں سے کچھ افسانوں کو سرمیلا بوس اور پروین سوامی نے رد کیا ہے۔ بھارت نے سرکاری طور پر مشرقی پاکستان پر حملے کی منظوری دی۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ اسے حملہ آور قرار دینے میں ناکام رہا۔ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال مشرقی پاکستان سے بھی بدتر ہے (حراست میں ہلاکتیں، جعلی مقابلے، عصمت دری وغیرہ)۔ یہاں تک کہ محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران بچوں اور عورتوں کو بھی حراست میں لیا جاتا ہے۔ کیا اس صورتحال پاکستان کی مداخلت نہیں بنتی؟
اصل نسل کشی بہاری برادری کی تھی، جو مکتی باہنی نے کی تھی۔ 500,000 سے زیادہ لوگ بے رحمی سے مارے گئے۔ ان کے قتل عام کو ہندوستانی اور مکتی باہنی نے پاکستان کی مسلح افواج سے منسوب کیا تھا۔ بہاریوں کی اردو بولنے والی برادری آج بھی بے وطن ہے اور بستیوں میں رہتی ہے۔
پھر جعلی میڈیا مہم کے ذریعے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام اور تنہا کر دیا گیا۔ اندرا گاندھی نے امریکہ اور مغربی دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے جمہوریت کارڈ کا استعمال کیا کہ پاکستان سفاکانہ فوجی آمریت کی زد میں ہے۔ مسلم ممالک کے لیے جہاں منتخب حکومتیں نہیں تھیں، اس نے نام نہاد نسل کشی کا کارڈ استعمال کیا۔ اندرا گاندھی نے اپنے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا استعمال پاکستانی فوج کے ہاتھوں مشرقی پاکستان میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے بڑے پیمانے پر قتل کی کہانیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
بی جے پی کی زیرقیادت بھارت بلوچستان، سابق فاٹا اور جی بی کے لوگوں کے خلاف پراکسیز اور من گھڑت میڈیا مہمات کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو پاکستان کے نظریہ اور سپرٹ کے خلاف مائل نہ ہونے دیں اور اپنے دشمنوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنائیں۔ ہم اپنے شہید ہونے والے سپاہیوں کی قربانیوں کو تہہ دل سے سراہتے ہیں جو 1971 کی مشکل ترین جنگ میں لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ مشرقی بنگال کے عوام کی امنگوں کو پورا نہیں کر سکی۔ ہندوستان نے بڑی چالاکی سے زبان کے مسئلے کا فائدہ اٹھایا، جو آزادی کے فوراً بعد شروع ہوا تھا۔ پاکستان 16 دسمبر 1971 سے بہت پہلے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ مشرقی بازو درحقیقت اس دن ٹوٹ گیا جب مغربی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے مشرقی پاکستان میں ایک سیٹ نہیں جیتی ۔